بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر سے متعلق تحقیق


سوال

حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت کس عمر میں ملی؟ کس عمر میں زندہ آسمانوں پر اٹھائے گئے؟ زمین پر واپس آکر کتنی عمر گزاریں گے؟

جواب

حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ و السلام کی عمر  سے متعلق احادیثِ مبارکہ میں تفصیل ہے، اس بارے میں متعدد روایات منقول ہیں،  جن کی وجہ سے ان کی عمر کی تعیین میں بہت اختلاف ہے، ان کی عمر کے تین حصہ قابلِ غور ہیں، ایک بعثت سے پہلے کا، یعنی عیسی علیہ السلام کو نبوت کس عمر میں ملی؟  دوسرا یہ کہ وہ آسمان پر کس عمر میں اٹھائے گئے؟  اور تیسرا یہ کہ وہ قربِ  قیامت میں واپس آکر کتنا عرصہ دنیا میں رہیں گے؟ اور ان تینوں کی تعیین کے بعد ان کی مجموعی عمر کتنی ہے؟ اس سلسلے میں روایات مختلف ہیں، شراحِ حدیث اور محققین علماء نے اس میں مختلف توجیہات کی ہیں،  تاہم صحیح بخاری کی شرح فیض الباری میں امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ان تمام روایات میں ایسی تطبیق دی ہے کہ جس سے سب روایات میں تعارض ختم ہوجاتا ہے، اور حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی رحمہ اللہ نے اسی تطبیق کے مطابق مفصل تحقیق لکھی ہے، ذیل میں ان ہی کی تحقیق نقل کی جاتی ہے، ملاحظہ ہو:

                              ”واضح رہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی عمر کے متعلق اس قدر اختلاف پیش آنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ان کے حصصِ  عمر عام ابنائے آدم کی طرح مسلسل اور مشاہد نہیں گزرے ،بلکہ ان کی عمر میں ایک حصہ طویل وہ بھی شامل ہے جو بحالتِ رفع آسمان پر گزرا ہے،اسی وجہ سے رواۃ کو مختلف اعتبارات سے مختلف عمریں بیان کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جو زمانہ نبوت سے پیشتر کا ہے اس کی تعیین کا تو احادیث میں کہیں پتا نہیں، کیوں کہ وہ ایک احادی اور انفرادی حال تھا، دوسرا وہ زمانہ جو بعثت کے نام سے موسوم ہے، جو احادیث میں موجود ہے،کیوں کہ یہ زمانہ احادی نہیں، بلکہ اختلاط فیما بین الناس کا زمانہ تھا، تیسرا وہ زمانہ ہے جو بحالتِ  رفع آسمان پر گزرا، چوں کہ یہ زمانہ بھی مثل اوّل کے احادی اور انفرادی ہی تھا، بلکہ مزید برآں اس میں تباینِ عالم کی وجہ سے اس جہاں سے غیبوبت بھی رہی، لہٰذا اس کی بھی احادیث میں تعیین نہیں کی گئی،  چوتھا نزول من السماء کے بعد پھر اختلاط فیما بین الناس کا زمانہ ہے، اس سے بھی احادیث میں تعرض کیاگیا ہے، الغرض عمرِ مسیح علیہ السلام کے چار حصص میں سے چوں کہ دو حصوں میں بنی آدم کے ساتھ ان کا کوئی معاملہ نہیں رہا، لہٰذا ان کا ذکر بھی احادیث میں نہیں ہے۔ برخلاف اس کے وہ دو زمانے جس میں عیسیٰ علیہ السلام بحیثیتِ نبوت رہے اور بحیثیتِ امامت رہیں گے، احادیث میں مختلف طور سے بیان ہوچکی ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے:

’’وأخرج ابن سعد عن إبراهیم النخعي قال: قال رسول اﷲ صلی الله علیه وسلم: یعیش کل نبي نصف عمر الذي قبله وإن عیسٰی ابن مریم مکث قومه أربعین عاماً‘‘. (خصائص الکبریٰ وکنزالعمال ج۱۱ ص۴۷۸ حدیث:۳۲۲۶۰)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم میں چالیس برس رہے، مگر اس کے برخلاف (کنزالعمال ج۱۱ ص۴۷۹، حدیث:۳۲۲۶۲) میں ہے:

’’إنه لم یکن نبي کان بعده نبي إلا عاش نصف عمر هم الذي کان قبله، وإن عیسٰی ابن مریم عاش عشرین ومائة وإني لا أراني إلا ذاهباً علی رأس الستین‘‘.

اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم میں چالیس سال نہیں، بلکہ ایک سو بیس سال رہے، ان دونوں کے سوا تینتیس سال کا بھی ایک قول ہے،الحاصل عیسیٰ علیہ السلام کی عمرقبل الرفع میں تین طور سے اختلاف پایا جاتا ہے۔

 اس طرح بعد النزول من السماء کے زمانہ میں چند اختلافات ہیں، چنانچہ (ابوداؤد ج۲ ص۱۳۵) میں ہے:

’’عن أبي هریرة مرفوعاً ینزل عیسٰی علیه السلام إلٰی أن قال: فیمکث في الأرض أربعین سنة‘‘.

اور مسلم شریف میں: ’’عن ابن عمرو أنه یمکث في الأرض بعد نزوله سبع سنین‘‘.

اب ملاحظہ کیجیے کہ اوّل روایت سے بعد النزول من السماء کی مدت اقامت چالیس سال اور دوسری روایت سے سات ہی سال معلوم ہوتی ہے، انہیں انتشارات کو علماء نے دیکھ کر تطبیق کے لیے (نہ انکارِ رفع عیسیٰ علیہ السلام کے لیے) مختلف صورتیں اختیار کی ہیں، پس کسی نے تو اوّل کے تینتیس سال اور بعد کے سات سال لے کر مجموع عمر چالیس قرار دی، اور کسی نے ایک سو بیس ہی کو زمانہ رفع سے قبل کی عمر قرار دے ڈالی اور بعد کے چالیس سال چوں کہ بحیثیتِ امامت گزریں گے، لہٰذا ان کو نظرانداز کیا، لیکن آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ تقدیرِ اوّل پر ایک سو بیس والی روایت متروک ہوئی جاتی ہے، اور تقدیرِ ثانی پر سات اور چالیس والی روایتوں کا کوئی محمل نہیں رہتا، لہٰذا ان جمیع احادیث کو جمع کرنے سے اوّلاً بغرضِ تنقیحِ روایات اتنا عرض کر دینا ضروری ہے کہ تینتیس سال کی روایت تو مرفوعاً کہیں ثابت نہیں، بلکہ علماء نے شواہد سے اسے نصاریٰ کا قول قرار دیا ہے۔ چنانچہ شرح مواہب جلد اوّل وخامس وزاد المعاد وجمل میں مشرح مذکور ہے، بلکہ شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے کہ جلالین شریف میں اس قول  کو اختیار کیا تھا مرقاۃ الصعود میں اپنا رجوع نقل کرتے ہیں، لہٰذا اسے تو ساقط ہی سمجھیے۔

اس کے بعد یہ غور کیجیے کہ ایک سو بیس والی روایت میں کون سی عمر مذکورہے؟  تو وہ اسی حدیث سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک سو بیس وہ عمر نہیں جس پر عیسیٰ علیہ السلام مرفوع ہوئے،  بلکہ قبل الرفع اور بعد النزول ملا کر مجموعی عمر ہے۔ کیوں کہ اسی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر بعد حذف کسور ساٹھ سال بیان فرمائی ہے، اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جمیع عمر ہے۔ پس جب کہ معلوم ہو گیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی عمر مجموعی ایک سوبیس سال ہے تو اب یہ معلوم کیجیے کہ بعد النزول عیسیٰ علیہ السلام کتنے دن بعد ارض پر اور حیات رہیں گے؛ تاکہ بقاعدہ حساب عمر قبل الرفع خود متعین ہو جائے؛ کیوں کہ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر رہنے کے متعرض فیہ صرف دو ہی زمانے ہیں یا قبل الرفع حال النبوۃ یا بعد النزول حال الامۃ، پھر جب مجموع عمر بھی معلوم ہے اور مابعد النزول بھی معلوم ہو جائے تو مابعد النزول کو مجموع سے تفریق کر دیجیے؛ تاکہ بقاعدہ حساب حاصل تفریق عیسیٰ علیہ السلام کی قبل الرفع عمر نکل آئے؛  لہٰذا اس سے پہلے میں اس اختلاف کو رفع کرنا چاہتا ہوں جو ما بعد النزول میں ہے؛ تاکہ عند الحساب مفرق یعنی عدداقل متعین ہو جائے۔
آپ کو معلوم ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد النزول عمر میں روایات دو طرح پر ہیں۔ بعض میں سات سال اور بعض میں چالیس سالہے۔ ان ہر دو روایات میں صورت تطبیق یہ ہے کہ مجموع زمانہ بعد النزول چالیس سال قراردیا جائے اور سات سال وہ رہیں جو امام مہدی بمعیۃ عیسیٰ علیہ السلام گزاریں گے۔ جیسا کہ روایتِ ابوداؤد سے امام مہدی کا بعد نزول عیسیٰ علیہ السلام ۷یا۹سال تک علی شک الراوی حیات رہنا معلوم ہوتا ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مدتِ اقامت زمانہ نزول کے بعد چالیس سال ہے۔ پھر رواۃ نے مختلف اعتبارات سے متعدد عمریں ذکر کی ہیں۔ ان چالیس کو اگر مجموع عمر ایک سو بیس میں سے تفریق کر دیا جائے تو حاصل تفریق اسی سال ہوتے ہیں جو کہ بمقتضی حدیث کنزالعمال عیسیٰ علیہ السلام کی عند الرفع عمر ہے۔ اس کے بعد جو اختلافات کہ عمر عندالرفع میں ہیں، ان کو دیکھیے۔

تینتیس سال والے قول کا تو مہجور ہونا معلوم ہوچکا، رہی ایک سو بیس والی روایت تو اس میں خود حدیث سے قرینہ پیش کر چکا ہوں کہ یہ مجموع عمر ہے، نہ وہ عمر جو عندالرفع تھی، رہی چالیس والی روایت تو اس میں صرف زمانہ نبوت کو لیاگیا ہے، زمانہ نبوت سے جو پہلی عمر ہے وہ اس میں محسوب نہیں۔

جیسا کہ کنزالعمال ج۱۱ ص۴۷۸ حدیث نمبر۳۲۲۵۹ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے: ’’یافاطمة! إنه لم یبعث نبي إلا عمر الذي بعده نصف عمره وإن عیسٰی ابن مریم بعث رسولاً لأربعین وإني بعثت لعشرین‘‘.
دیکھیے  اس روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اربعین کو مدتِ بعثت قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے اپنی بعثت کا زمانہ عشرین فرمایا؛ کیوں کہ چالیس سال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی اور بیس برس بحذفِ کسور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغِ نبوت فرمائی۔ جس کا مجموعہ وہی ساٹھ سال ہوتے ہیں جو ایک سو بیس والی روایت میں مذکور تھے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ احادیث میں تنصیف مجموعہ عمر وعمرِ نبوت ہر دو کے اعتبار سے وارد ہے اور یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال بعد النبوۃ رہے اور چالیس ہی سال امام رہیں گے۔ لہٰذا ان دونوں کو اگر مجموع عمر میں سے گھٹا دیجیے تو عیسیٰ علیہ السلام کی عمر عند البعثت چالیس سال قرار پاتی ہے جو کہ انبیاء ورسل کی بعثت کی عمر ہے۔ جیسا کہ (شرح مواہب ج۱ ص۶۴) پر مذکور ہے۔
الحاصل انہیں روایات سے بخوبی معلوم ہوگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا رفع اسی (80)  سال کی عمر میں ہوا۔ چنانچہ اصابہ میں سعید بن المسیب سے اسی طرح مذکور ہے۔ ہاں! اس تقدیر پر فقط ایک عاش کا لفظ بظاہر غیرمربوط معلوم ہوتا ہے،  مگر اگر ذرا تامل کیجیے تو اس میں بھی کوئی ضیق نہیں، کیوں کہ اگر تناسبِ سیاق وسباق کی رعایت  کیجیے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس مقام پر یہی لفظ مناسب تھا؛ کیوں کہ اوّلاً دیگر انبیاء علیہم السلام کے حق میں عاش بصیغہ ماضی صادق تھا ہی پھر بحقِ عیسیٰ علیہ السلام بھی اپنے حصصِ عمر میں دو حصوں کے اعتبار سے صادق تھا،  اس کے ساتھ ہی آپ کو تنصیفِ عمر ذکر کرنی مدنظر تھی؛  لہٰذا اگر سلسلہ نقض کرتے تو علاوہ نقضِ نظم کے بیان تنصیف میں تطویل لاطائل اختیار کرنی پڑتی۔ 

لہٰذا حصہ ثالث کو بھی جو بہ حقیقت مستقبلہ ہے صیغہ ماضی ہی میں لپیٹ دیا؛  تاکہ تنصیفِ جمیعِ عمر اور عمرِ نبوت ہر دو اعتبار سے معہ رعایتِ اختصار مستقیم ہو جائے اور سلسلہ نظم بھی بحال رہے۔
چناں چہ اس کے نظائر قرآن شریف میں بھی ہیں: ’’کما قال: إن أراد أن یهلك المسیح ابن مریم وأمه‘‘ حال آں کہ صیغہ استقبال بحقِ ام کسی طرح درست نہیں ہوسکتا۔ مگر فصحاء کا طریق ہے کہ جہاں قحط کلام بین ہو وہاں پھر غیرمتعلق امور میں تطویل پسندیدہ نہیں سمجھتے۔
رہی میلادِ عیسیٰ والی حدیث جو تفسیر ابن کثیر میں موجود ہے، اس کی مراد تشبیہ ہے۔ بحسب عدم التغیر ورنہ تو عمر مذکور بحقِ اہلِ جنت بھی درست نہیں؛ کیوں کہ جو  ابدی ہے اس کی عمر کا حساب ہی کیا؟
یہ امر بھی قابلِ یاداشت ہے کہ تنصیفِ عمرِ امم ومشاہیرِ  انبیاء علیہم السلام جن کے اعتبار سے زمانہ کی تاریخ بیان کی جاتی ہے سلسلہ طولیٰ اور تناسبِ قرون کے اعتبار سے ہے۔ یہ تو تطبیقِ روایات کی نسبت عرض کیاگیا۔ رہا مرزائیوں کی جو اب دہی تو اس میں سہولت ہے؛ کیوں کہ اس جماعت کے پاس سوائے زندقہ اور الحاد کے کچھ نہیں۔بھلا ان سے دریافت  کیجیے کہ جب کہ بحکمِ حدیث ہر نبی کی عمر نصف عما قبلہ ہوتی ہے تو مرزاقادیانی کدھر سے نبی ہوگیا؛ کیوں کہ اس کی عمر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بجائے نصف کے جمیع عمر سے بھی زیادہ ہے۔ لہٰذا جس حدیث کو وہ پیش کرتے ہیں وہ بالعکس ان ہی کی روسیاہی اور غوایت پر برہان ہے۔ وﷲ اعلم بالصواب! ۔۔۔ (حررہ العبد: بدر عالم میرٹھی عفی عنہ، احتساب قادیانیت جلد 4)

فيض الباري على صحيح البخاري (3/ 490):
"أما مكثه عليه الصلاة والسلام بعد النزول، فالصواب عندي فيه أربعون سنة، كما عند أبي داود: «فيمكث في الأرض أربعين سنة، ثم يتوفى، فيصلي عليه المسلمون». اهـ. وأما ما توهمه رواية مسلم: «أنه يمكث في الأرض سبع سنين»، فهو مدة مكثه مع الإمام المهدي، كما عند أبي داود: «وبعد تمام سبع سنين يتوفى الإمام، ويبقى عيسى عليه الصلاة والسلام بعد ذلك ثلاثا وثلاثين سنة». وأما رفعه، فكان على ثمانين سنة، وصححه الحافظ في «الإصابة»، وهو الذي رجع إليه السيوطي في «مرقاة الصعود». وأما مجموع عمره عليه الصلاة والسلام فمئة وعشرون، نبىء على أربعين منها، ورفع على ثمانين، ويمكث في الأرض أربعين. وقد مضى منها ثمانون، فبقي أربعون. وهو معنى قوله صلى الله عليه وسلم «وإن عيسى عليه الصلاة والسلام عاش مئة وعشرين، ولا أراني ذاهبا إلا على ستين» - بالمعنى، يعني به نصف مجموع عمر عيسى عليه الصلاة والسلام. وإنما قال: «عاش» -بصيغة الماضي - لكون أكثره ماضيا، ونزوله معلوما. وإنما لم يفصل بين ثمانين وأربعين، لأن المقصود كان بيان التنصيف، والإجمال في مثله شائع.  ثم إن التنصيف باعتبار أولي العزم من الأنبياء عليهم السلام الذين جرى بذكرهم التأريخ، أو بحسب المجموع، لا بحسب الأشخاص والأفراد، فاعلمه. وهو الذي يناسب، فإن الحساب يكون باعتبار الوقائع المهمة، وبها ينضبط التاريخ". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143801200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں