بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام مال سے خلاصی کےلیے اسے مسجد میں استعمال کرنا


سوال

فراغِ ذمہ کےلیے حرام مال مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب

 حرام مال کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہو اور وہ بلاعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے: سود، چوری، رشوت وغیرہ تو اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، یعنی  وہ جہاں سے آیا ہے وہیں اسے واپس دے دیا جائے، مالک وفات پاچکا ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹا دیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو  ثواب کی نیت کے بغیر  اسے مستحقِ زکات کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔ 

اور اگر وہ بالعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے حرام ملازمت وغیرہ کے ذریعے تو اسے مالک کو واپس کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس کا یہی ایک مصرف ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے۔ بہرصورت مسجد کی تعمیر میں حرام مال استعمال کرنا  جائز نہیں ہے۔

"فتاوی شامی"  میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".(5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201531

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں