بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حد کی تعریف


سوال

میں آں جناب کی توجہ" حد" کی تعریف جو کہ پاکستانی حدود قوانین میں اختیار کی گئی ہے کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں جو کہ حسبِ ذیل ہے:

"حد" سے مرادوہ سزائیں ہیں جو قرآن یاسنت میں مذکور ہیں۔ میں آں جناب سےان نکات پرفتویٰ حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ:

1) آیا “مذکورہ بالا “ حد کی تعریف قرآن میں کسی جگہ مذکور ہے؟

2) آیا “ مذکورہ بالا” حد کی تعریف سنت میں کسی جگہ مذکورہے؟

3) “مذکورہ بالا” حد کی تعریف اسلامی دنیا میں سب سے پہلےکس نے وضع کی؟ ازراہِ کرم نکات وار جواب دے کر مشکور فرمائیے!

جواب

1-2-  لفظ ''حد'' کا استعمال تو قرآن وسنت میں موجود ہے، لیکن’’حد‘‘  کی  یہ اصطلاحی تعریف قرآن و سنت  کے الفاظ میں نہیں ہے؛ اس لیے کہ اصطلاحات کی تعریف بیان کرنا قرآن وسنت کا موضوع نہیں ہے، قرآن مجید اور سنت اصولی احکام وقوانین بیان کرتے ہیں، اس اصولی راہ نمائی کی روشنی میں ائمہ مجتہدین نے اصطلاحات کی تعریفات بیان کی ہیں، لہٰذا قرآن مجید میں اس کی تعریف تلاش کرنا درست نہیں ہے۔

’’حد‘‘  کی صحیح تعریف  یہ ہے:

’’حد‘‘  کا لغوی معنی "خط کھینچنا ہے"  امام راغب اصفہانی نے لکھا ہے:
"الحد الحاجز بين الشيئين الذى يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال: حددت كذا: جعلت له حداً يميز، و حد الدار ما تتميز به عن غيرها."
"حد، وہ خط متارکہ ہے جو دو چیزوں کے درمیان حدِ فاصل قائم کرتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے ملنے سے روکتا ہے۔ کہا جاتا ہے : میں نے یہ حد لگا دی: یعنی خط کھینچ دیا؛ تاکہ تمیز ہو سکے۔ اور گھر کی حد جو اسے دوسرے گھر سے علیحدہ کرتی ہے وہ اس کا خط ہوتا ہے"۔
فقہ حنفی کی  کتاب ہدایہ :کتاب الحدود ج: ٢ ص:٥٠٦  میں حد کی تعریف بتلائی ہے : 
'' (اَلْحَدُّ) فِی الشَّرِیْعَةِ: هُوَ الْعَقُوْبَةُ الْمُقَدَّرَةُ حَقًّالِلّٰهِ تَعَالٰی''.
'' یعنی حد شریعت میں اُس معین سزا کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنا حق قرار دے کر مقرر کی ہو۔ '' 

ثابت یہ ہوا کہ حد کا اصطلاحی مفہوم ’’کسی جرم کی وہ سزا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معین کی ہے‘‘۔
’’والحد في الشرع عقوبة مقررة لأجل حق الله، فيخرج التعزير؛ لعدم تقديره؛ إذ أن تقديره مفوض لرأي الحاكم، ويخرج القصاص؛ لأنه حق الآدمي‘‘.
"حد شریعت میں اللہ کے حق کی بنیاد پر مقررہ سزا کو کہتے ہیں، تعزیر اس سے الگ ہے کہ وہ حاکم وقت کی صواب دید پر موقوف ہے۔ اور قصاص اس میں اس لیے نہیں آتا کہ وہ اللہ کا نہیں بندے کا حق ہے۔"

 مذکورہ تعریف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے ہی ماخوذ ہے:

’’حدثنا قتيبة بن سعيد، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ليث، ‏‏‏‏‏‏عن ابن شهاب، ‏‏‏‏‏‏عن عروة، ‏‏‏‏‏‏عن عائشة رضي الله عنها أن قريشاً أهمهم شأن المرأة المخزومية التي سرقت، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ ومن يكلم فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ ‏‏‏‏‏‏فقالوا:‏‏‏‏ ومن يجترئ عليه إلا أسامة بن زيد: حب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكلّمه أسامة، ‏‏‏‏‏‏فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "أتشفع في حد من حدود الله؟ ثم قام فاختطب ثم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ إنما أهلك الذين قبلكم أنهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه، وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد، وأيم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها". حدیث " 3475

ترجمہ: عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا نے سے روایت کیا ہے کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود) جس نے (غزوہ فتح کے موقع پر) چوری کر لی تھی، اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے؟  آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہیں، ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں) آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کم زور  چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔

متعدد احادیث میں بھی لفظ ’’حد‘‘ استعمال ہوا ہے جو  اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
’’حد يعمل به في الأرض خيره لأهل الأرض من أن يمطروا ثلاثين صباحاً اربعين صباحاً‘‘.
ترجمہ: "زمین والوں پر ایک حد کا جاری کرنا تیس دنوں کی متواتر بارش (رحمت) سے بہتر ہے (دوسری روایت میں) چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔"

شریعت میں پانچ جرائم کی حدودمقرر  ہیں جو کہ قرآن و سنت سے ثابت ہیں:

(۱)ڈاکہ(۲)چوری(۳)زنا(۴)تہمت زنا(۵)شراب نوشی

3-حد کی تعریف فقہ اور اصولِ فقہ کی کتب میں مذکور ہے، جیسا کہ گزشتہ حوالوں میں گزرا۔باقی سب سے پہلے تعریف کرنے والے کے بارے میں یقینی علم نہیں اور نہ ہی اس سے اس کی تعریف پر کوئی اثر پڑتا ہے۔تعزیرات میں درج تعریف کے متعلق کہاجاسکتا ہے کہ اس میں یہ اضافہ نہیں ہے کہ وہ سزائیں اللہ تبارک وتعالی کے حق کے طورپر مقررہوں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143906200018

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں