بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حجرِ اسود کی تاریخ اور فضیلت


سوال

حجرِ اسود کی فضیلت اور تاریخ کیا ہے؟ اور ایک بات یہ بھی پوچھنی تھی کہ میں نے یہ سنا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ جب حجرِ اسود کالا ہو جائے گا تو قیامت آ جائے گی، کیا یہ بات صحیح ہے؟ 

جواب

حجرِ اسود جنت کے یاقوتوں میں سے ایک ہے جسے سیدنا آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے, اور تعمیر بیت اللہ کے وقت ایک گوشہ میں نصب فرمایا تھا۔

طوفانِ نوح  علیہ السلام میں آدم علیہ السلام کا تعمیر کردہ بیت اللہ آسمانوں پر اُٹھائے جاتے وقت اس متبرک پتھر کو شکمِ جبلِ ابی قبیس میں امانت رکھ دیا گیا تھا، پھر تعمیر ابراہیمی کے وقت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام  کی خدمتِ عالیہ میں پیش کردیا تھا، اس طرح اُسے پھر اسی جگہ کی زینت بنادیا گیا جہاں پہلے رونق افروز تھا۔(تفسیر قرطبی)  

 اس کے فضائل اور اوصاف میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بہت سے ارشادات حدیث اور تاریخ کی کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، لیکن جنت کا یہ انمول موتی، عالی مرتبت، مقدس ومتبرک یاقوت،  گردشِ ایام کی ستم رانیوں سے محفوظ نہ رہ سکا، متعدد بار اُسے فساق وفجار ظالموں کے ہاتھوں تختۂ مشق بننا پڑا، بارہا حوادثات کا شکار ہوا اور اس کے نازنین بدن پر کتنی ہی مرتبہ زخم آئے۔     ۳۱۷ھ میں جب مکہ مکرمہ قرامطہ کے دستِ تصرف میں آیا، تو ابوطاہر سلیمان بن الحسن نے جو قرامطہ کا سردار تھا، حرم محترم میں خون کی ہولی کھیلی۔ ۸/ذو الحجہ ۳۱۷ھ کو اس قدر قتل عام کیا کہ حجاج کی لاشوں سے چاہِ زمزم بھر گیا، شہر اور مضافات کے تیس ہزار بے قصور افراد کو موت کی نیند سلادیا، جن میں سترہ سو حاجی اور سات سو طواف کرنے والے بھی شہید ہوگئے، اس نے یہ سارا کھیل میزابِ رحمت یعنی کعبہ شریف کا پرنالہ جو سونے کا تھا، اُکھاڑنے، مقامِ ابراہیم اور حجرِ اسود چوری کرنے کی نامشکور جسارت کے لیے کھیلا تھا۔     دو آدمی اس مذموم حرکت کے لیے کعبہ شریف پر چڑھے، مگر آن واحد میں سر کے بل زمین پر گرکر واصلِ جہنم ہوگئے، مقامِ ابراہیم تو اس کے دست تصرف سے مامون رہا، کیوں کہ خدام حرم نے اُسے پہاڑ کی گھاٹی میں کہیں چھپا دیاتھا، مگر ۱۴/ ذو الحجہ ۳۱۷ھ بروزِ اتوار عصر کے وقت جعفر بن حلاج نے ابوطاہر کے حکم سے حجرِ اسود کو کدال سے اُکھاڑلیا، اس پر کئی ضربیں لگائیں جس سے کچھ ریزے ٹوٹ گئے اور اپنے ساتھ بحرین لے گئے، اور اس کی جگہ خالی رہ گئی۔

تقریباً بائیس سال کا طویل زمانہ گزرجانے کے بعد بحرین کے شہر ’’ہجر‘‘ سے بروز بدھ ۱۰/ ذو الحجہ ۳۳۹ھ کو یہ مبارک پتھر واپس ہوا، واپسی بھی معجزنما تھی، قرامطیوں سے باربار واپسی کا مطالبہ جب زور پکڑ گیا تو انہوں نے یہ عذرِ لنگ پیش کیا کہ وہ پتھر تو دوسرے پتھروں میں مل جل گیاہے، ان میں سے اسے الگ کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں، اگر تمہارے پاس اس کی کوئی علامت ہے تو تلاش کرلو، چنانچہ علماءِ کرام سے استفسار کیاگیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا : ان سب پتھروں کو آگ میں ڈالا جائے، جو پتھر آگ میں پگھل یا پھٹ جائیں وہ حجرِ اسود نہیں، حجرِ اسود کو آگ متاثر نہیں کر سکتی؛ کیوْں کہ یہ جنت کا پتھر ہے۔ اس طرح اس مقدس پتھر کی برتری اور مقبولیت کا لوہا منواکر اُسے واپس لوٹایا گیا اور پھر سے کعبہ شریف کی زینت بنادیا گیا۔

علامہ جلال الدین سیوطی  رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ:’’ یہ ظالم ابوطاہر چیچک کے عارضہ میں مبتلا ہوا، اس کا جسم پھٹ گیا اور نہایت ذلت کے ساتھ مرا۔ ‘‘       (اعلام الاعلام، ص:۱۶۵، مرقات،ج:۵،ص:۳۲۰)

علامہ قطب الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ابوطاہر قرامطی بدبخت کو ابرہہ کی طرح بیت اللہ کی بجائے اپنے شہر ’’ہجر‘‘ میں حج کا اجتماع کرانے کا جنون دماغ میں پیدا ہوا، اس نے اس غرض سے ایک عالی شان محل بنوایا جس کا نام ’’دارالہجرہ‘‘ رکھا، چناں چہ ۳۱۷ ھ میں حج کے ایام میں ایک لشکرِ جرار لے کر مکہ مکرمہ پر حملہ آور ہوا، طواف کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں اور احرام کی حالت میں حاجیوں پر دستِ ستم دراز کیا، حد یہ کہ حرمِ محترم کے اندر بھی بے دریغ قتل کیا، شہر کے علاوہ گرد ونواح میں قتلِ عام کا بازار گرم کیا، تیس ہزار بے گناہ انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے، اس قدر روح فرسا واقعہ کبھی رونما نہیں ہوا تھا، وہ ظالم کہتے تھے کہ تم مسلمان کہتے ہو: ’’من دخله کان آمناً‘‘ (یعنی جو حرم میں داخل ہوگیا وہ مامون ہوگیا) بتاؤ اب امن کہاں گیا؟‘‘

علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ  رقم طراز ہیں:

’’ابوطاہر نے کعبۃ اللہ کا دروازہ اکھاڑ پھینکا، غلافِ کعبہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے فوجیوں میں بانٹ دیا، حجرِ اسود کو اکھاڑکے ساتھ لے گیا، اہلِ مکہ کے گھر بار اور مال ومتاع کو لوٹ لیا، اس نے روانگی کے وقت یہ اعلان کردیا کہ آئندہ سے حج اس کے ہاں ہوا کرے گا۔‘‘

خلافتِ مستکفی کے امراء نے بے حد کوشش کی کہ کسی طرح حجرِ اسود واپس آجائے، انہوں نے پچاس ہزار دینارسرخ کی پیش کش بھی کی، مگر قرامطی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ وہ (ابوطاہر) اس خیالِ فاسد پر قائم تھا کہ یہ ناپاک جسارت اپنے امام عبید اللہ المہدی والی افریقہ کی خوشنودی کے لیے کررہا ہے، لیکن جب منصور اسماعیل نے قیروان سے حجرِ اسود کی واپسی کا مطالبہ شدت سے کیا اور ادھر عبید اللہ المہدی نے بھی ابوطاہر کو سختی سے ڈانٹا کہ اگر حجرِ اسود واپس نہ کروگے تو پھر جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ، اس لیے مجبوراً ۳۳۹ھ میں واپس کرنا پڑا، جب کہ اس سے قبل خلافتِ مستکفی کی جانب سے پچاس ہزار دینار کے عوض بھی واپسی کا مطالبہ مسترد کردیاگیا تھا۔ (ابن خلدون،ج:۵،ص:۱۹۶)

طواف کی ابتدا  حجرِ اسود کے استلام سے ہوتی ہے، یہ جنت کا پتھر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے گناہ جذب کرنے کی عجیب تاثیر رکھی ہے، چناں چہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’نَزَلَ الْحَجْرُ الأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّة وَهو اَشَدُّ بَیَاضاً مِنَ اللَّبَنِ، فَسَوَّدَتْه خَطَایَا بَنِيْ اٰدَمَ‘‘. (رواہ الترمذی ۸۷۷، الترغیب والترہیب: ۲۷۰)
ترجمہ: جس وقت حجر اسود جنت سے اترا تو وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، پھر آدمیوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا۔
اور ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ’’حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں دو یاقوت ہیں، اگر اللہ تعالیٰ ان کی روشنی کو ختم نہ فرماتے تو یہ پوری زمین وآسمان کو روشن کردیتے‘‘۔( ترمذی شریف :۸۸۷، الترغیب والترہیب : ۲۷۰)
نیز یہ بھی مروی ہے کہ حجرِ اسود قیامت کے دن اپنے بوسہ لینے اور استلام کرنے والوں کے حق میں سفارش کرے گا اور اس دن اللہ تعالیٰ اس کو زبان اور ہونٹ عطا فرمائیں گے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’أَشْهِدُوْا هذا الْحَجَرَ خَیَراً؛ فَإِنَّه یَوْمَ الْقِیَامَة شَافِعٌ یَشْفَعُ، لَه لِسَانٌ وَشَفَتَانِ یَشْهد لِمَنْ اِسْتَلَمَه‘‘. (رواہ الطبرانی فی الاوسط عن عائشۃؓ، الترغیب والترہیب: ۲۷۰)
ترجمہ: اس حجرِ اسود کو اپنے عملِ خیر کا گواہ بنالو؛ کیوں کہ قیامت کے دن یہ سفارشی بن کر (اللہ کے دربار میں) اپنے استلام کرنے والوں کے لیے سفارش کرے گا، اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔
پیغمبر علیہ السلام  سےحجرِ اسود کا بوسہ دیتے وقت رقت وزاری بھی ثابت ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اس کی تقبیل واستلام کو گویاکہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کرنا قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’مَنْ فَاوَضَه؛ فَاِنَّمَا یُفَاوِضُ یَدَ الرَّحْمٰنِ‘‘. (رواہ ابن ماجہ ۲۹۵۷، الترغیب والترہیب: ۲۶۸)
ترجمہ: جو شخص حجرِ اسود کو ہاتھ لگائے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کررہا ہے۔
بریں بنا حجرِ اسود کی تقبیل/ استلام کا کمالِ استحضار کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے، بھیڑ کا موقع نہ ہو اور سہولت سے بوسہ لینا ممکن ہو تو قریب جاکر بوسہ لیں، اور اگر بھیڑ زیادہ ہو تو دور ہی سے استلام کرلیں، اس سے بھی بوسہ کے برابر ہی ثواب ملتا ہے۔

باقی حجرِ اسود کے رنگ سے متعلق احادیث میں جو وارد ہے اس کا بیان اوپر آ چکا ہےکہ بنی آدم کے گناہوں نے اس کا رنگ کالا کر دیا۔  لیکن ہمیں ایسی کوئی حدیث نہیں ملی جس میں یہ صراحت ہو کہ حجرِ اسود کے رنگ کا کالا ہونا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں