بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے لیئے صاحب نصاب ہونے کا اعتبار کب ہے


سوال

 زید کے پاس رجب میں داخلہ حج کے وقت اتنی رقم موجود تھی جس کے ذریعہ سے حج کرلیں چنانچہ اس نے پیسے داخل کرلیے لیکن اتفاقاً اس کاآنے سےپہلےیہ رقم اس نے اپنی ضروریات میں صرف کردی تواب کیااس رقم کی وجہ سےاسپرحج واجب ہوگایانہیں ؟ 2۔ بیٹے نے ماں کی اجازت سے اس کے طرف سے بینک میں اسکے حج کیلئے رقم جمع کروادےمگرقرعہ اندازی میں ماں کانام نہیں نکلا چناچہ بیٹے نے رقم واپس نکال دی تو اب یہ رقم جوبیٹے نے واپس نکال دی ہے یہ ماں کی شمارہوگی اوربینک ماں کاوکیل بالقبض شمارہوگایایہ رقم ماں کے قبضے میں نہ آنے کیوجہ سے بیٹے کی شمارہوگی۔ بالفرض اگرماں کی کی ہوتوکیااس رقم کیوجہ سے ماں پرحج واجب ہوگایانہیں،حالانکہ قرعہ اندازی میں اسکا نام نہیں نکلاہے۔ 3۔اگربیٹے نے ماں کی اجازت کے بغیر اپنی طرف سے رقم جمع کروادی تب کیاحکم ہے ۔ ؟ 

جواب

۱) فقہاء نےحج کے لیئے صاحب نصاب ہونے کا وقت اشہر حج میں جب حج کے لیئے قافلے روانہ ہورہے ہوں ،اس وقت کو قرار دیا ہے، لیکن آج کل ھمارے ملک میں قانونی اعتبار سے حج کے لیئے قافلوں کے جانے سے چند مہینے پیشتر ہی حج کی کاغذی وانتظامی کاروائی کرنا لازمی ہوتا ہےلہذا فی زمانہ حج کے لیئے صاحب نصاب ہونے کا وقت بھی حج کے داخلوں کا وقت ہے، چناں چہ  زید کے پاس حج کے داخلہ کے وقت جب اتنی رقم موجود تھی جو فرضیت حج کے لیئے کافی تھی تو اس پر اس وقت حج فرض ہوچکا تھا ،اس رقم کا کسی اور جگہ لگانا اس کے لیئے جائز نہیں تھا، اب رقم صرف کرنے کی وجہ سے فریضہ حج ساقط نہیں ہوابلکہ ذمہ میں باقی ہے۔

۲،۳) ماں کی اجازت یا بغیر اجازت ہر دو صورت میں یہ رقم بیٹے ہی کی ملکیت ہے، بینک ماں کی طرف سے وکیل بالقبض نہیں ہے بلکہ بیٹے کی طرف سے ماں پر خرچ کرنے کا وکیل ہے۔ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143707200039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں