بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج افراد کرنے والے کے لیے نفلی طواف اور عمرہ کرنا


سوال

کیا حج افراد کرنے والا نفلی طواف اور عمرہ کرسکتاہے ؟ جواب بمع حوالہ مطلوب ہے !

جواب

حج افراد کرنے والا شخص کے لیے نفلی طواف کرنا جائز ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، باقی حج افراد کے احرام پر عمرہ کا احرام باندھنے میں یہ تفصیل ہے کہ :

1- اگر کسی آفاقی نے حج کے احرام پر عمرہ کا احرام داخل کیا تو  پس اگر اُ س نے طوافِ قدوم شروع کرنے سے پہلے یعنی ایک چکر پورا کرنے سے پہلے حج کے احرام پر عمرہ کا احرام داخل کیا تووہ دونوں اس پر لازم ہوجائیں گے کیوں کہ آفاقی کے حق میں حج اور عمرہ کو جمع کرنا مشروع ہے،  پس اس طرح جمع کرکے وہ قارن (حجِ قران کرنے والا) ہوجائے گا،  لیکن سنت کے خلاف کرنے کی وجہ سے بُرائی کا مرتکب ہوگا اور گناہ گار ہوگا، اس لیے کہ سنت یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کے احرام ایک ساتھ باندھے یا عمرے کے  احرام کو حج کے احرام پر مقدم کرے، یعنی پہلے عمرہ کا احرام باندھے  اس کے بعد حج کا احرام اس پر داخل کرے ۔ بہر حال اس پر بالاتفاق دمِ شکر یعنی دمِ قران واجب ہوگا کیوں کہ اس کا قران صحیح ہے اوراس میں بُرائی کم ہے، اور اس کے لیےعمرہ ترک کرنا مستحب بھی نہیں ہے ۔

2- اگر آفاقی نے طوافِ قدوم شروع کرنے کے بعد عمرہ کا احرام باندھا خواہ ایک ہی چکر کرنے کے بعد باندھا ہو اور وہ مکہ معظمہ میں ہو یا عرفات میں وقوفِ عرفہ کے وقت سے پہلے باندھا ہو  تب بھی اس پر دونوں (عمرہ اور حج) لازم ہوجائیں گے اور وہ قارن ہوجائے گا،  لیکن ایسا کرنا پہلی صورت کی بہ نسبت زیادہ برا ہے اور وہ زیادہ گناہ گار ہوگا، اور اس کے لیے عمرہ ترک کرنا بالاتفاق مستحب ہے،  پس اگر اس نے عمرہ کو ترک کردیا تو اس کی قضا کرے گا، کیوں کہ اس کا شروع ہونا درست ہے ( اور شروع کرنے سے عمرہ واجب ہوجاتا ہے ) اور اس کے ترک کی وجہ سے اس پر دمِ رفض (عمرہ یا حج شروع کرکے ترک کنرے کی وجہ سے واجب ہونے والا دم)بھی واجب ہوگا۔  اور اگر عمرہ کو ترک نہ کیا اور اس کے افعال ادا کرلیے تو درست و جائز ہے، تاہم اس صورت میں دمِ شکرواجب ہے ۔(عمدۃ الفقہ)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 587):
"(آفاقي أحرم بحج ثم) أحرم (بعمرة لزماه) وصار قارنا مسيئا (و) لذا (بطلت) عمرته (بالوقوف قبل أفعالها) لأنها لم تشرع مرتبة على الحج (لا بالتوجه) إلى عرفة (فإن طاف له) طواف القدوم (ثم أحرم بها فمضى عليهما ذبح) وهو دم جبر (وندب رفضها) لتأكده بطوافه (فإن رفض قضى) لصحة الشروع فيهما (وأراق دما) لرفضها.

(قوله: آفاقي إلخ) شروع في القسم الرابع (قوله: ثم أحرم بعمرة) أي قبل أن يشرع في طواف القدوم لباب، ويدل عليه المقابلة بقوله فإن طاف له: أي شرع فيه ولو قليلاً كما تعرفه قريباً وقدمناه في أول باب القران، ولم يتقدم خلافه فافهم (قوله: لزماه) لأن الجمع بينهما مشروع في حق الآفاقي فيصير بذلك قارن لكنه أخطأ السنة فيصير مسيئاً هداية لأن السنة في القران أن يحرم بهما معاً أو يقدم إحرام العمرة على إحرام الحج، زيلعي. لكن الثاني يسمى تمتعاً عرفاً (قوله: وصار قارناً مسيئاً) قال في شرح اللباب: وعليه دم شكر لقلة إساءته ولعدم وجوب رفض عمرته. اهـ. قلت: والأولى أن يقول: ولعدم ندب رفض عمرته، بخلاف ما إذا أحرم لها بعد طواف القدوم للحج فإنه يندب رفضها كما يأتي". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں