بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ سفر میں سنتِ مؤکدہ پڑھے یا قضا نمازیں؟


سوال

1-  زید  کے ذمہ 8 سال کی قضا نمازیں ہیں، وہ ان کو ادا کرنا تو چاہتا ہے، لیکن اتنا وقت نہیں نکال پاتا،  نوافل شروع کرتا ہے تو دل میں آتا ہے کہ فرائض تو قضا کرو؟ اب نہ قضا  کا نہ نوافل کا۔

2- دوسری بات کہ اگر زید 10 دن کے لیے سفر پر جاۓ تو دورانِ مدتِ سفر اپنے رشتہ داروں کےہاں سننِ مؤکدہ کی جگہ قضاۓ عمری پڑھ سکتاہے یا سنتیں ضرور ادا کرے؟

جواب

1-  اگر کسی شخص کی عمر زیادہ ہو اور کئی سال کی قضا  نمازیں باقی ہوں تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو نوافل میں مشغول نہ کرے،  بلکہ قضا نمازیں ذمہ سے اتارنے کی کوشش کرے۔  اور اگر عمر زیادہ نہ ہو اور اس کی قضا  نمازیں باقی ہوں تو اس کو چاہیے کہ نوافل کے ساتھ ساتھ قضا نمازوں کی ادائیگی کا بھی اہتمام کرے۔ تاوقتیکہ اس کے ذمہ کوئی نماز باقی نہ رہے۔

لہذا زید کو چاہیے کہ وہ اوقات کے اعتبار سے ایسا نظم بنا لے کہ جس میں قضا  اور نوافل دونوں ادا کی جا سکیں اور دل میں کوئی خلجان باقی نہ رہے۔ اس کی آسان ترتیب یہ ہے کہ ہر وقتی فرض نماز کے ساتھ قضا نمازوں میں سے اس وقت کی کوئی قضا نماز پڑھ لے، اس طرح جتنے عرصے کی نمازیں قضا ہوں گی اتنے وقت میں قضا نمازوں سے سبک دوش ہوجائے گا۔ 

2-  فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر حالتِ سفر میں موقع ہو اور جلدی نہ ہو تو سنتیں پڑھ لینا اولیٰ اور افضل ہے، لازم نہیں ہے؛یعنی سنت کا موقع ہوتے ہوئے حالتِ سفر میں سنت پڑھ لینا چاہیے، اس کے بعد قضا  نمازیں پڑھنی چاہییں، سنتیں چھوڑنی نہیں چاہییں۔ تاہم اگر کسی نے سفر میں قیام کے دوران سنتوں کی جگہ قضا نمازیں پڑھ لیں تو اسے گناہ گار نہیں کہا جائے گا۔ 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 141):
"واختلفوا في ترك السنن في السفر، فقيل: الأفضل هو الترك ترخيصاً، وقيل: الفعل تقرباً. 
وقال الهندواني: الفعل حال النزول، والترك حال السير. وقيل: يصلي سنة الفجر خاصةً. وقيل: سنة المغرب أيضاً. 
وفي التجنيس: والمختار أنه إن كان حال أمن وقرار يأتي بها؛ لأنها شرعت مكملات، والمسافر إليه محتاج، وإن كان حال خوف لايأتي بها؛ لأنه ترك بعذر اهـ". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں