بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حیض میں وقوعِ طلاق کا حکم


سوال

فقہ حنفی کے نزدیک کیا حیض میں طلاق واقع ہو جاتی ہے ؟

جواب

اگر کوئی حالتِ حیض میں طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ وہ حدیث کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے  گناہ گار ہوگا،  حالتِ حیض میں طلاق دینا مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے، فقہ حنفی میں اس کو ''طلاقِ بدعی'' کہا جاتا ہے، یعنی وہ طلاق جو سنت کے خلاف ہے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حالتِ حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جب لاعلمی میں اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دے دی تھی تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ رجوع کر لیں اور پھر اگر چاہیں تو دوبارہ طہر کی حالت میں طلاق دیں، رجوع کا حکم دینے سے معلوم ہوا کہ حالتِ حیض میں اگرچہ طلاق دیناجائز نہیں، لیکن اگر طلاق دے دی تو طلاق بہرحال واقع ہوجاتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 232)

'' (والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال: والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد (وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعاً للمعصية۔

(قوله: وتجب رجعتها) أي الموطوءة المطلقة في الحيض (قوله: على الأصح) مقابله قول القدوري: إنها مستحبة ؛ لأن المعصية وقعت فتعذر ارتفاعها، ووجه الأصح قوله صلى الله عليه وسلم لعمر في حديث ابن عمر في الصحيحين: «مر ابنك فليراجعها»، حين طلقها في حالة الحيض، فإنه يشتمل على وجوبين: صريح وهو الوجوب على عمر أن يأمر، وضمني وهو ما يتعلق بابنه عند توجيه الصيغة إليه، فإن عمر نائب فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم  فهو كالمبلغ، وتعذر ارتفاع المعصية لا يصلح صارفاً للصيغة عن الوجوب لجواز إيجاب رفع أثرها وهو العدة وتطويلها ؛ إذ بقاء الشيء بقاء ما هو أثره من وجه فلا تترك الحقيقة، وتمامه في الفتح۔ (قوله: رفعاً للمعصية) بالراء، وهي أولى من نسخة الدال، ط أي لأن الدفع بالدال لما لم يقع والرفع بالراء للواقع والمعصية هنا وقعت، والمراد رفع أثرها وهو العدة وتطويلها كما علمت ؛ لأن رفع الطلاق بعد وقوعه غير ممكن''.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں