بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حاجی نے طواف زیارت نہیں کیا اور اپنے وطن واپس آگیا تو کیا حکم ہے؟


سوال

طوافِ  زیارت اگر رہ گیا اور اپنے وطن واپس آ گیا اور دوبارہ جانے سے عاجز ہو تو کوئی گنجائش ہے؟

جواب

طوافِ زیارت حج کا دوسرا رکن ہے، اسے ادا کیے بغیر حج مکمل نہیں ہوگا، اور شریعت میں اس کا کوئی بدل نہیں ، لہذا جوشخص طوافِ زیارت نہیں کر سکا اس طرح کہ ایامِ نحر کے شروع ہو نے کے بعد کوئی طواف نہیں کیا تو  جب تک خود جاکر  طوافِ  زیارت نہ کرلے اس کا طواف ادا نہیں ہوگا اور آخری عمر تک اس کی ادائیگی ذمہ میں  فرض رہے گی۔

اور جب تک طواف زیارت نہ کرلے  اس وقت تک بیوی سے ازدواجی تعلق (صحبت، بوس کنار) اس کے لیے حرام رہتا ہے ، ہاں البتہ اگر اس نے ایامِ نحر شروع ہونے کے بعد طوافِ صدر (وداع) کرلیا ہو، یا طوافِ نذر یا نفلی طواف کیا ہو تو یہ طوافِ زیارت کے قائم مقام ہوجائے گا اور بیوی اس کے لیے حلال ہوجائے گی۔

نیز بارہ ذی الحجہ کے بعد جب بھی وہ طوافِ زیارت کرلے اس کا طواف ادا ہوجائے گا البتہ اس کے ذمہ  تاخیر کی وجہ سے ایک دم (چھوٹا جانور یا بڑے جانور میں ایک حصہ) حدودِ حرم میں دینا لازم ہوگا، اور اگر حاجی موت تک طوافِ زیارت نہ کرسکا تو اس پر آخری وقت میں ایک بدنہ (اونٹ یا گائے) حدودِ حرم میں ذبح کرنے کے لیے وصیت کرنا لازم ہوگا۔

اگرچہ اتنی مالی استطاعت نہیں ہے کہ حج پر جاسکےتو بیوی اس کے لیے حرام رہے گی جب تک بذاتِ خود طوافِ زیارت ادا نہ کرے،  دیگر خلاصی کی کوئی صورت نہیں ہے۔

بدائع الصنائع(۱۸۹/۳):

"ولایکون الحاج محصراً بعد ما وقف بعرفة ویبقی محرماً عن النساء إلی أن یطوف طواف الزیارة".

وفیہ ایضاً(ص۸۰):

"فصل في حکم الطواف إذا فات: وأما حکمه إذا فات عن أیام النحر فهو أنه لایسقط بل یجب أن یأتي به لأن سائر الأوقات وقته بخلاف الوقوف بعرفة. وقال بعد سطر: ثم إن کان بمکة یأتي به بإحرامه الأول لأنه قائم إذ التحلل بالطواف ولم یوجد وعلیه لتأ خیره عن أیام النحر دم عند أبي حنیفة وإن کان رجع إلی أهله فعلیه أن یرجع إلی مکة بإحرامه الأول ولایحتاج إلی إحرام جدید ومحرم عن النساء إلی أن یعود فیطوف".

فتاوی ہندیہ (۲۳۲/۱):

"ولو لم یطف أصلاً لم تحل له النساء وإن طال ومضت سنون، وهذا بإجماع، کذا في غایة السروجي شرح الهدایة".

فتاوی شامی (۵۱۸/۲):

"(قوله: وحل له النساء) أي بعد الرکن منه، وهو أربعة أشواط، بحر، ولو لم یطف أصلاً لایحل له النساء وإن طال ومضت سنون بإجماع، کذا في الهندیة". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں