بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جھینگا کی حلت اور حرمت میں سے کس قول پر عمل کیا جائے ؟


سوال

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب شہید رحمتہ اللہ علیہ سے جب جھینگے کے متعلق سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے فرما یا تھا :

"جھینگے کے متعلق خود جامعہ میں دو مکتبہ فکر ہیں، اوردونوں کے پاس ٹھوس دلائل ہیں ۔اس صورتِ حال میں آپ جس عالم کی اتباع کرتے ہیں اس کے مطابق چلیں ۔میں جھینگے کو مکروہ سمجھتا ہوں "۔ 

حضرت کے اس جواب کے بعد سے میں نے جھینگا کھانا ختم کر دیا ۔ اب آپ کی طرف سے جھینگے کے جائز ہونے کا فتوی جاری ہوا ہے ۔مجھے اب کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے؟

جواب

جھینگےکی حلت اورحرمت کی بنیاد اس بات پرہےکہ یہ مچھلی ہےیا نہیں،  جولوگ اس کو مچھلی قراردیتے ہیں وہ اس کی حلت کے قائل ہیں اورجولوگ اس کو مچھلی قرارنہیں دیتے وہ اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ہمارے نزدیک جھینگا مچھلی کی قسم ہے اور اس کا  کھاناحلال ہے۔  تفصیل کے لیے ""جواھر الفتاوی" جلد 3  ،( مولفہ :مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب ) ملاحظہ فرمائیں۔

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء کی ابتدا سے اب تک کی تحقیق کے مطابق چوں کہ یہ مچھلی کی اقسام میں سے ہے، اس لیے دار الافتاء سے ہمیشہ جواز کا فتویٰ دیا جاتاہے۔  نیز حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اور علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ کی تحقیقات اور فتاویٰ کے مطابق بھی جھینگا مچھلی کی قسم ہے، حیاۃ الحیوان میں بھی علامہ دمیری نے اسے مچھلی کی قسم قرار دیا ہے۔ ابتدا میں حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ  کی رائے بھی یہی تھی، بعد میں آپ کراہت کے قائل ہوگئے تھے، اور علاج وغیرہ کے علاوہ کھانے سے منع فرماتے تھے، لیکن ان کے دور میں بھی جامعہ کے دار الافتاء سے دیگر رفقاء کے دستخط سے جھینگے کے جواز کا ہی فتویٰ جاری ہوتا رہاہے۔

باقی جھینگا کھانا ضروری بھی نہیں ہے، اگر آپ کو جھینگے سے طبعی کراہت ہوتی ہے، یا چوں کہ بعض علماء اس کو مچھلی نہیں سمجھتے ؛ اس لیے ان کے قول کے مطابق آپ جھینگا کھانے سے احتیاط کرتے  ہیں تو شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008202050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں