بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے دن کسی بزرگ کے آنے پر بڑے اجتماع میں جمعہ ادا کرنا اور محلہ کی مسجد بند کرنا


سوال

 ہمارے یہاں عام طور پر جب جلسہ یا کوئی بھی پروگرام منعقد کیا جاتا ہے تو اس کے لیے کسی بڑے میدان اور جمعہ کے دن کا انتخاب کیا جاتا ہے، مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ شرکت کریں اور کوئی بڑے بزرگ نمازِ جمعہ ادا کراتے ہیں جس سےلوگ اور زیادہ رغبت سے شرکت کرتے ہیں، لوگوں میں بھی بڑی محبت اور اتحاد و اتفاق دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن اس کا نقصان یہ نظر آتا ہے کہ اس دن پاس پڑوس کی بلکہ کافی دور تک کی مسجدیں خالی رہ جاتی ہیں، وہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی، بلکہ بعض مسجدوں میں اذان بھی نہیں ہوتی، سب لوگ اس جلسہ گاہ میں چلے جاتے ہیں. تو کیا از روئے شرع اس میں کوئی قباحت ہے؟ اگر جمعہ کے دن کے انتخاب سے مسجدیں خالی رہ جاتی ہیں تو کیا اس سے پرہیز کرنا چاہیے یا اس میں کوئی قباحت نہیں؟

جواب

شہر میں اگر چہ مختلف جگہوں پر جمعہ  ادا کرنا جائز ہے، لیکن جمعہ کے دن  مسلمانوں کا   ایک جگہ جمع ہوکر جامع مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنا افضل ہے، اس سے مسلمانوں کی شان وشوکت کا اظہار ہوتا ہے، سب مسلمان باہم ملتے ہیں، جس سے اتفاق اور اتحاد کا ماحول پیدا ہوتاہے، لہذا کسی بزرگ کے آنے پر اگرعلاقے کے  تمام مسلمان  ایک جگہ جمع ہوکر جمعہ کی نماز ادا کریں اور اس بزرگ عالم کے وعظ اور بیان میں شرکت کریں تو یہ ایک اچھا کام ہے، اس سے اگر جمعہ کی نماز کے لیے محلہ کی مسجد بند بھی ہوجائے تو اس محلہ کی مسجد کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی، مفتی عبد الرحیم لاجپوری رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

                  ”نماز پنج گانہ کے لیے محلہ کی مسجد میں  مردوں  کو حاضر ی کا حکم تاکیدی ہے، اہلِ  محلہ کے حق میں  محلہ کی مسجد ازروئے ثواب جامع مسجد کے برابر ہے، شرعی عذر کے بغیر اس کے ترک کی اجازت نہیں ، ایک ہی نمازی ہو تب بھی وہیں  نماز پڑھے، البتہ نماز جمعہ کے لیے محلہ کی مسجد بند کرکے جامع مسجد جانے کی اجازت ہے، ایک مسجد میں  نمازی نہیں  سما سکتے ہیں  یا مسجد دور ہونے کی وجہ سے وہاں  پہنچنے میں  لوگوں  کو تکلیف ہوتی ہو تو ایک سے زائد مسجدوں  میں  جمعہ کا انتظام کر سکتے ہیں، عذر کے بغیر محلہ کی مسجد میں  جمعہ پڑھنے کا انتظام کرنے سے شریعت کا مقصد اور مصلحت اور اسلامی شان و شوکت ختم ہوجاتی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں  محلہ کی مسجد کو نمازِ جمعہ کے وقت بند کر کے شاہی مسجد میں  نماز پڑھنے سے مسجد کے احترام میں  کچھ خلل نہ آئے گا جس طرح کہ نمازِ عید کے لیے جامع مسجد بند کر کے عید گاہ میں  جانے سے جامع مسجد کے احترام میں  کچھ خلل نہیں  آتا ہے، یہی نہیں  بلکہ اس سے اسلامی شان وشوکت میں  اضافہ ہوتا ہے اور بڑی فضیلت کے حق دار ہوتے ہیں، اس طریقہ کے قیام کا اجر تاقیامت ان کو ملتا رہے گا، آں حضرتﷺکا ارشاد ہے:"من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجرمن عمل بها من بعده". یعنی جس نے اسلام میں  اچھی سنت جاری کی اس کو اس کا اجرو ثواب ملے گا اور اس کے بعد جو اس پر عمل کرے گا ان کا اجر بھی اس کو ملے گا، اس طرح کے عمل کرنے والوں  کے ثواب میں  کوئی کمی نہیں  آئے گی “. (فتاوی رحیمیہ 9/90، ط: دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں