بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی کس اذان پر کاروبار بند کیاجائے


سوال

بندہ کراچی کے علاقہ ملیر ۱۵ سے پانچ منٹ کے فاصلے پر واقع گوٹھ اولڈ تھانہ میں جمعہ کی خطابت کرتاہے، وہاں دستور یہ ہے کہ ۱۲:۴۵ کو نمازِ جمعہ کی اذانِ اول آتی ہے پھر ۱۲:۵أ پر بیان شروع کرتاہوں اور ۱:۲۰ کو بیان ختم کرنے کے بعد پانچ منٹ سنتیں پڑھنے کے بعد اذانِ ثانی اور پھر خطبۂ جمعہ و نماز ادا کی جاتی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ میں نے کافی تفاسیر کا مطالعہ کیا، جس میں تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر عثمانی، تفسیر مظہری ، اور تسیر ثنائی، وغیرہ تقریبا سب تفاسیر میں یہی لکھاتھا کہ جمعہ کی اذان اول کا وقت زوال کے فورًا بعد ہے، اور پھر بیان ، نیز یہ کہ آیت اذا نودی للصلوٰۃ الخ سے مراد بھی خطبہ کی اذان ہے ، اور وجوبِ سعی الی الجمعۃ اور ترک تجارت کا وجوب اور دیگر مشاغل میں مصروفیت کی حرمت بھی اس اذان ثانی یعنی اذان خطبہ سے ہی متعلق ہے اس لیے کہ اذان اول تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہوئی: اب جواب طلب امر یہ ہے کہ ہمارے شہر کراچی کے بیشتر بڑے چھوٹے مدارس اذان اول کو بیان کے بعد دینے کا اہمتمام کرتے ہیں جو کہ سلف کے طریقے کے بھی خلاف ہے نیز امام اعظم کا بھی یہی فرمان ہے، کہ زوال کے ساتھ ہی اذان اول دی جائے، ازاں سوا حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی کے قائل تھے کہ اذان اول کا وقت زوال کے فورًا بعد ہے اور اسی وقت ہی دی جائے۔: تو یہ اکثر مدارس جو اذان اول بیان کے بعد دیتے ہیں تو اس کے لیے کیا مضبوط دلیل ہے؟ نیز جہاں میں بیان کرتاہوں وہاں بیان سے پہلے اذان دی جاتی ہے، میں نے کہا کہ آپ لوگ بیان کے بعد اذان دیں تو انھوں نے فتاویٰ عثمانی جلد اول صفحہ ۵۳۰ تا ۵۴۶ کا حوالہ دیا جس کا میں نے خود بھی مطالعہ کیا تو معلوم ہواکہ واقعی سلف کا اور جمھور کا یہی طریقہ چلا آرہاہے کہ اذانِ اول زوال کے ساتھ ہی بیان سے پہلے دی جائے: بہر کیف مجھے اذان اول کا بیانِ جمعہ کے بعد دینے کے متعلق تسلی بخش جواب درکار ہے نیز اس سے متعلق جو بھی ضروری امور ہیں ان سے مجھے آگاہ کیا جائے .

جواب

حرمت بیع وشراء میں اذان اول کااعتبارہے جوزوال کے متصل بعد ہوتی ہے،زوال کے بعدپہلی اذان ہوتے ہی خریدوفروخت حرام ہوجائے گی اس کے بعدکاروبارمیں مصروف ہوناجائزنہیں۔حضرت علامہ سیدمحمدیوسف بنوری ؒ نے معارف السنن میں لکھا ہے کہ :

’’حضرت عثمان ؓ نے جواذان اول کی زیادتی فرمائی تویہ اذان اول زوال کے متصل بعدہوتی تھی اوریہی حرمت بیع کاسبب بھی ہے‘‘۔[معارف السنن،4/401،دارالتصنیف بنوری ٹاؤن ]

خلافت راشدہ میں صحابہ کرام اوربعدکے اسلاف کامعمول یہی تھاکہ یہ اذان اول زوال کے متصل بعدکہی جاتی تھی اوراسی پرحرمت بیع کااعلان کردیاجاتاتھا۔لہذا اذان اول کومؤخرکرنے کاجومعمول آپ نے ذکرکیاہے کہ اول وعظ ہوپھراذان اول اورپھرسنتوں کے وقفہ کے بعداذان ثانی کہی جاتی ہے،یہ طریقہ صحابہ کرام ؓ اورسلف صالحین کے معمول کے خلاف ہے۔اس سلسلہ میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء سے مفصل مدلل فتوی شائع ہوچکاہے جسے فتاویٰ بینات جلد دوم صفحہ280 تا289،طبع مکتبہ بینات بنوری ٹاؤن میں ملاحظہ کیاجاسکتاہے۔


فتوی نمبر : 143603200012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں