بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی دونوں اذانوں کا آغاز کب ہوا؟ اور ان کا وقت کیا ہو؟


سوال

جمعہ کے دن دو اذانوں کی شروعات  کب ہوئی؟ اور کس نے کی؟ اور جمعہ کی پہلی اذان بیان سے پہلے دینا افضل ہے یا دونوں اذانیں بیان کے بعد دینا افضل ہے؟ جب کہ بیان کے بعد دونوں اذانوں کے درمیان صرف چار رکعت سنتوں کا وقت ہوتا ہے یعنی پانچ سے سات منٹ کا، برائے کرم مدلل اور مفصل جواب عنایت فرمائیں!

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمعہ کی ایک اذان ہوا کرتی تھی، اسی طرح حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں بھی جمعہ کے لیے  ایک ہی اذان ہوتی تھی اور یہ وہ اذان ہے جو آج کل دوسری اذان کہلاتی ہے، یعنی جو اذان  مؤذن امام کے سامنے کھڑے ہو کر دیتا ہے۔

پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں  مجمع بڑھ گیا تو ایک اور اذان کی ضرورت محسوس کی گئی، جس کے لیے انہوں نے  "زوراء" نامی مقام سے اذان دینے کا حکم دیا، اور یہ وہ اذان ہے جو آج کل جمعہ کی پہلی اذان کہلاتی ہے، اس کو حدیث میں تیسری اذان کہا گیا؛ اس لیے کہ جمعہ کی نماز میں ایک اذان اور ایک اقامت پہلے سے تھی تو اس اعتبار سے یہ تیسری اذان ہوئی۔  بہرحال یہ آج کل کی ترتیب کے اعتبار سے پہلی اذان ہےاور اس پر صحابہ میں سے کسی نے کوئی اشکال نہیں کیا، اس طرح اس اذان پر امت کا اجماع ہو گیا۔

اور پہلی اذان سے متعلق معارف السنن میں صراحت ہے کہ وہ زوال کے فوراً بعد ہوا کرتی تھی؛ اس لیے پہلی اذان زوال کے بعد بیان سے پہلے ہی دینا چاہیے۔ البتہ اگر کسی جگہ جمعے کا بیان زوال سے پہلے ہی شروع ہو تو ظاہر ہے پہلی اذان زوال سے پہلے نہیں دی جائے گی ؛ اس لیے بیان ختم ہوتے ہی ظہر کے اول وقت میں دے دی جائے۔

 

صحيح البخاري- طوق النجاة (2/ 8):

"عن السائب بن يزيد قال: كان النداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما، فلما كان عثمان رضي الله عنه وكثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء".

سنن الترمذي (2/ 392):

"عن السائب بن يزيد قال : كان الأذان على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم و أبي بكر وعمر إذا خرج الإمام و [ إذا ] أقيمت الصلاة، فلما كان عثمان [ رضي الله عنه ] زاد النداء الثالث على الزوراء". قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 161):

"قال في شرح المنية: واختلفوا في المراد بالأذان الأول، فقيل: الأول باعتبار المشروعية، وهو الذي بين يدي المنبر؛ لأنه الذي كان أولاً في زمنه عليه الصلاة والسلام، وزمن أبي بكر وعمر، حتى أحدث عثمان الأذان الثاني على الزوراء حين كثر الناس. والأصح: أنه الأول باعتبار الوقت، وهو الذي يكون على المنارة بعد الزوال. اهـ. والزوراء بالمد اسم موضع في المدينة".

تاريخ المدينة لابن شبة (3/ 958):

"عن السائب بن يزيد قال: «كان النداء يوم الجمعة إذا خرج الإمام، وإذا قامت الصلاة في زمن النبي صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما، حتى كان عثمان رضي الله عنه فكثر الناس، فأمر بالنداء الثالث على الزوراء، فثبت إلى الساعة»".
معارف السنن میں حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"و بالجملة فهذا الأذان کان قبل التأذین بین یدي الخطیب، وکان في أول وقت الظهر متصلاً بالزوال". (ص 396 ج 4)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 171):

"(ويجب السعي وترك البيع بالأذان الأول)، والواقع عقيب الزوال".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں