بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ سے پہلے ایک مسجد میں تلاوت کرنا اور جمعہ پڑھنے دوسری مسجد جانا


سوال

جامع مسجد میں ایک آدمی ہر جمعہ کو تقریباً دو گھنٹہ پہلے آتاہے اور وضو بناکر تلاوت کرتا ہے یا نفل نماز پڑھتا ہے ( چوں کہ مسجد ہٰذا میں جمعہ کی نماز پونے دو بجے ہوتی ہے ) اور ساتھ ہی تھوڑا  دور  دوسری مسجد میں جمعہ کی نماز   ایک بجے  ہوتی ہے  تو یہ آدمی جمعہ کی نماز پڑھنے اُس مسجد میں چلا جاتا ہے ،ایسا کر نا ٹھیک ہے یا غلط ؟

جواب

اگر مذکورہ شخص جمعہ کا وقت داخل ہونے سے پہلے (زوال سے پہلے) مسجد میں آتا ہے اور قرآن کریم کی تلاوت یا نفل پڑھ کر زوال سے  پہلے ہی وہ دوسری مسجد کے لیے نکل جاتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔

لیکن اگر  جمعہ کا وقت داخل ہونے کے بعدوہ  اس مسجد سے نکلتا ہے تو ( کسی معتبر  شرعی وجہ کے بغیر) اس مسجد کو چھوڑ کر دوسری مسجد میں جمعہ پڑھنا مکروہ ہے۔
اس شخص کے لیے بہتر یہ ہے کہ جس مسجد میں وہ جمعہ پڑھنا چاہ رہا ہے وقت سے پہلے وہاں  جاکر قرآن کریم کی تلاوت یا نفل وغیرہ پڑھے؛ تاکہ جمعہ پڑھنے کے لیے جلدی آنے کی فضیلت اسے مل سکے۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 54)

"( وكره ) تحريماً؛ للنهي ( خروج من لم يصل من مسجد أذن فيه ) جرى على الغالب، والمراد دخول الوقت، أذن فيه أو لا، ( إلا لمن ينتظم به أمر جماعة أخرى )، أو كان الخروج لمسجد حيه ولم يصلوا فيه، أو لأستاذه لدرسه، أو لسماع الوعظ، أو لحاجة ومن عزمه أن يعود".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ مشكول - (4 / 337)

"وأطلقه المصنف، فشمل ما أذن فيه وهو داخله، أو دخل بعد الأذان، والظاهر أن مرادهم من الأذان فيه هو دخول الوقت وهو داخله، سواء أذن فيه أو في غيره، كما أن الظاهر من الخروج من غير صلاة عدم الصلاة مع الجماعة، سواء خرج أو كان ماكثاً في المسجد من غير صلاة، كما نشاهده في زماننا من بعض الفسقة، حتى لو كانت الجماعة يؤخرون لدخول الوقت المستحب، كالصبح مثلاً فخرج إنسان من المسجد بعد دخول الوقت ثم رجع وصلى مع الجماعة ينبغي أن لا يكون مكروهاً، ولم أره كله منقولاً".فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201864

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں