بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جسم سے خون نکلنے کی کتنی مقدار ناقض وضو ہے؟


سوال

خون نکلنے کی وہ کیا کم سے کم مقدار ہے جس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ مثلاً: اگر جسم کے بال صاف کرتے ہوئے بلیڈ سے کَٹ لگ جانے کی وجہ سے عموماً جوخون کی مقدار نکل آتی ہے تو کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

خون جسم سے نکل کر ٹپک جائے یا  یا اپنے مقام سے بہہ کر اس جگہ تک پہنچ جائے  جس کا دھونا وضو یا غسل میں فرض یا واجب ہے  تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں  بلیڈ کے کٹ لگنے سے اتنا خون نکل آئے کہ ایک قطرہ بھی اپنی جگہ سے بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا، اور اگر خون نکلنے کے بعد بہا نہیں، بلکہ اپنی جگہ پر رہا اور اس کو کپڑے وغیرہ سے صاف کرلیا اور پھر دوبارہ وہ نکلا اور اس طرح متعدد بار بار کیا تو  اندازہ کرے کہ اگر اس  کو کپڑے سے صاف نہ کرتے تو  یہ سب مل کر اتنا ہوجاتا کہ بہہ جاتا تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا، اور اگر اس مقدار سے کم ہوتو وضو نہیں ٹوٹے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 134)
"(وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتاداً أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.
(قوله: أي يلحقه حكم التطهير) فائدة ذكر الحكم دفع ورود داخل العين وباطن الجرح؛ إذ حقيقة التطهير فيهما ممكنة، وإنما الساقط حكمه، نهر وسراج. ويظهر منه أن الكلام في جرح يضره الغسل بالماء، فلو لم يضر نقض ما سال فيه؛ لأن حكم التطهير وهو وجوب غسله غير ساقط؛ والمراد بالتطهير ما يعم الغسل والمسح في الغسل أو في الوضوء، كما ذكره ابن الكمال؛ ليشمل ما لو سال إلى محل يمكن مسحه دون غسله للعذر، كما أشار إليه في الحلية أيضاً، وزاد في شرح المنية الكبير بعد قوله في الغسل أو في الوضوء قوله: أو في إزالة النجاسة الحقيقية؛ لئلا يرد ما لو افتصد وخرج منه دم كثير ولم يتلطخ رأس الجرح، فإنه ناقض مع أنه لم يسل إلى ما يلحقه حكم التطهير؛ لأنه سال إلى المكان دون البدن، وبزيادة ذلك لا يرد؛ لأن المكان يجب تطهيره في الجملة للصلاة عليه، ولهذا عمم في البحر ما يلحقه حكم التطهير بقوله: من بدن وثوب ومكان.
أقول: يرد عليه ما لو سال إلى نهر ونحوه مما لا يصلى عليه، وما لو مص العلق أو القراد الكبير وامتلأ دماً؛ فإنه ناقض كما سيأتي متناً، فالأحسن ما في النهر عن بعض المتأخرين من أن المراد السيلان ولو بالقوة: أي فإن دم الفصد ونحوه سائل إلى ما يلحقه حكم التطهير حكماً، تأمل".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں