بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس کی ملکیت میں ساڑھے چھ تولہ سونا موجود ہو اس کو علاج کے لیے زکات دینا


سوال

میری پھوپھی ہیں جن کے دو بچے ہیں،  ایک بیٹا اور ایک بیٹی، ان کے شوہر کی آمدن ہمیشہ سے بہت ہی کم رہی ہے،  اب جا کے ان کی تن خواہ  24000 روپے ہے، جس کی وجہ سے گھر کے اخراجات بہت مشکل سے پورے ہوتے ہیں، لیکن جیسے اگر درمیان میں کوئی علاج وغیرہ یا کپڑے یا اور کوئی زائد چیز کی ضرورت پڑ گئی تو اس کے لیے کچھ پیسے نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ ان کے پاس ساڑھے چھ تولہ سونا بھی ہے اور کچھ جمع رقم بھی ہے۔ پہلے مسئلہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے ہم ان کو زکات دیتے رہے، لیکن پھر معلوم ہونے پر ہم نے ان کے بچوں کو مالک بنانا شروع کر دیا ۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ ان کا بیٹا کمانے لگا ہے اور اس کے پاس پیسے بھی جمع ہیں وہ اپنا خرچ خود اٹھا لیتا ہے، لیکن بیٹی کی شادی ہوئی  اور اس کا شوہر اس کا کچھ بھی خرچ نہیں اٹھا رہا، جب کہ وہ بیمار ہے اس کو  ulcer ہے اور  ovary میں cyst ہے، جس کی وجہ سے اس کے علاج کے لیے ہزاروں روپے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس کے پاس بھی  ساڑھے چھ تولہ سونا ہے، لیکن سو روپے بھی اس کا شوہر اس کو نہیں دیتا، سارا علاج کا بوجھ اس کی امی کے سر ہے جو کہ خود اتنی حیثیت نہیں رکھتیں ۔ ہم سے جہاں تک ہو سکتا ہے ان کی صدقہ سے مدد کرتے ہیں، لیکن علاج کے لیے زیادہ پیسے چاہیے ہوتے ہیں،  تو کیا کوئی صورت ایسی ہے کہ ہم ان کی زکات سے مدد کر دیں؟ اگر نہیں تو پھر ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟  کیوں کہ اس کے پاس تو پیسے ہوتے ہی نہیں ہیں ؟

جواب

اگر کسی شخص کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب (یعنی ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس) کے برابر  رقم نہیں ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہے تو وہ شخص مستحقِ زکات ہے، اور اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے،  اگر کسی کے پاس  کچھ زیور (سونا یا چاندی)  اور ضرورت سے زائد  کچھ سامان یاکچھ نقدی ہو تو اگر ان سب چیزوں کی مالیت مجموعی طور پر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ بنتی ہو تو وہ شخص مستحقِ زکات نہیں ہوگا اور اس کے لیے زکات لینا جائز نہیں ہوگا، لیکن اگر اس سے کم قیمت بنتی ہو تو وہ مستحقِ زکات ہے، اور اس کے لیے زکات کی رقم لینا جائز ہے۔

لہذا اگر آپ کی پھوپھی کی بیٹی کی ملکیت میں صرف ساڑھے چھ تولہ سونا ہے، اور اس کے علاوہ کوئی اور نقدی، یا ضرورت سے زائد سامان یا چاندی وغیرہ نہیں ہے تو چوں کہ یہ نصاب کی مالک نہیں ہے اور مستحق ہے اس لیے اس کو زکات دے سکتے ہیں، لیکن اگر اس کے پاس ساڑھے چھ تولہ سونے کے ساتھ کچھ نقدی یا ضرورت سے زائد سامان بھی تو  پھر اس کو زکات دینا جائز نہیں ہوگا۔

ایسی صورت میں وہ اپنے ملکیتی سونے  یا سامان وغیرہ کو فروخت کرکے اس  سے اپنا علاج کرائے اور جب وہ نصاب سے کم ہوجائے تو پھر مزید علاج کے لیے اس کو زکات دینا جائز ہوگا،  یا  یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ  وہ کسی سے قرض لے کر اپنا علاج معالجہ کرائیں اور پھر  اگر ان کے قرضہ کی رقم کو منہا کرنے کے بعد  ان کے پاس نصاب سے کم رقم بچے تو  آپ ان کو قرض کی ادائیگی کے لیے  زکات  دے دیں۔

الفتاوى الهندية (1/ 189):

’’لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان، دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة، فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي. والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء؛ إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي ... ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية. ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم،كذا في السراج الوهاج‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں