بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جدہ میں رہنے والے کا مسجد عائشہ سےاحرام باندھنا


سوال

میں جدہ میں رہتا ہوں ،میں جدہ سے حج کے لیے گیا اور احرام میں نے مسجد عائشہ سے باندھا ، مجھے دم دینا پڑے گا؟

جواب

 اہلِ حل(میقات اور  حدود حرم کے درمیان رہنے والا)  ہونے کی وجہ سے  آپ کے ذمہ  حج کے لیے جانے کی صورت میں اپنے گھر یا حدود حرم سے پہلے پہلے  حل میں ہی احرام باندھنا ضروری ہے۔  لہذا اگر آپ نے حرم کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے تنعیم جاکر مسجد عائشہ سے احرام باندھا اور اس کے بعد حرم میں گئے تو آپ پر دم لازم نہیں ہوا۔

اور اگر آپ پہلے احرام کی نیت کے بغیر  حدود حرم میں داخل ہوئے ہیں تو   آپ پر ایک دم لازم تو ہوگیا تھا، لیکن پھر دوبارہ حدودِ حرم سے باہر مقامِ حل میں واقع  مسجد عائشہ  جاکر وہاں سے حج کا  احرام باندھ کر واپس آنے کی وجہ سے آپ کے ذمہ سے دم ساقط ہوگیا ، لیکن ایسا کرنا بُرا ہے، اس پر توبہ کرکے آئندہ اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 163 ۔۱۶۶):

"والناس في حق المواقيت أصناف ثلاثة: صنف منهم يسمون أهل الآفاق: وهم الذين منازلهم خارج المواقيت التي وقت لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهي خمسة، كذا روي في الحديث: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقت لأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل الشام الجحفة، ولأهل نجد قرن، ولأهل اليمن يلملم، ولأهل العراق ذات عرق، وقال صلى الله عليه وسلم : هن لأهلهن ولمن مر بهن من غير أهلهن ممن أراد الحج أو العمرة» .

وصنف منهم يسمون أهل الحل: وهم الذين منازلهم داخل المواقيت الخمسة خارج الحرم، كأهل بستان بني عامر وغيرهم. وصنف منهم يسمون أهل الحرم: وهم أهل مكة ... وأما الصنف الثاني فميقاتهم للحج أو العمرة دويرة أهلهم أو حيث شاءوا من الحل الذي بين دويرة أهلهم وبين الحرم؛ لقوله عز وجل: ﴿ وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ﴾ [البقرة: 196] روينا عن علي وابن مسعود - رضي الله عنهما - أنهما قالا حين سئلا عن هذه الآية: إتمامهما أن تحرم بهما من دويرة أهلك، فلا يجوز لهم أن يجاوزوا ميقاتهم للحج أو العمرة إلا محرمين، والحل الذي بين دويرة أهلهم وبين الحرم كشيء واحد، فيجوز إحرامهم إلى آخر أجزاء الحل، كما يجوز إحرام الآفاقي من دويرة أهله إلى آخر أجزاء ميقاته، فلو جاوز أحد منهم ميقاته يريد الحج أو العمرة فدخل الحرم من غير إحرام فعليه دم، ولو عاد إلى الميقات قبل أن يحرم أو بعد ما أحرم، فهو على التفصيل والاتفاق والاختلاف الذي ذكرنا في الآفاقي إذا جاوز الميقات بغير إحرام".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 165)

"ولو جاوز ميقاتاً من المواقيت الخمسة يريد الحج أو العمرة فجاوزه بغير إحرام، ثم عاد قبل أن يحرم وأحرم من الميقات، وجاوزه محرماً لا يجب عليه دم بالإجماع؛ لأنه لما عاد إلى الميقات قبل أن يحرم، وأحرم التحقت تلك المجاوزة بالعدم، وصار هذا ابتداء إحرام منه".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں