ہمارے ایک جاننے والے ہیں، ان کو شادی ہوئے دوسال گزرے، ابھی تک اس عرصے میں گھر والی سے نہیں ملے، خلوت ہوئی ہے، آدمی نامرد بھی نہیں، ڈاکٹرے چیک اپ بھی کروایا ہے، ٹیسٹ بھی بالکل صاف ہے۔عامل سے علاج بھی کرایا، ان کا کہنا ہے کہ آپ دونوں پر جادو ہو اہے۔ مفتی صاحب پوچھنا یہ ہے یہ آدمی اب بیوی کو طلاق دینا چاہتے ہیں ۔طلاق دینے کی صورت میں آیا بیوی کو حقِ مہر ملے گا یا نہیں ۔اگر ملے گا تو کتنا پو را یا نصف ؟
صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی کے درمیان اگر خلوتِ صحیحہ ہوچکی ہے تو شوہر پر طے شدہ پورا مہر ادا کرنا لازم ہے، شوہر کا کسی حسی بیماری کے بغیر ہم بستری پر قادر نہ ہونا (چاہے جادو کی وجہ سے کیوں نہ ہو) خلوتِ صحیحہ سے مانع نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 114):
"(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء (بلا مانع حسي) كمرض لأحدهما يمنع الوطء (وطبعي) كوجود ثالث عاقل ذكره ابن الكمال، وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل (وشرعي) كإحرام لفرض أو نفل ... (كالوطء) فيما يجيء (ولو) كان الزوج (مجبوبا أو عنينا أو خصيا) ... وفيه عن شرح الوهبانية: أن العنة قد تكون لمرض أو ضعف خلقة أو كبر سن (في ثبوت النسب) ولو من المجبوب (و) في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية.
(قوله: لمرض إلخ) وكذا السحر، ويسمى المعقود كما سيأتي في بابه عن الوهبانية ... (قوله: وفي تأكد المهر) أي في خلوة النكاح الصحيح".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 494):
"باب العنين
وغيره (هو) لغة من لا يقدر على الجماع فعيل بمعنى مفعول جمعه عنن. وشرعا (من لايقدر على جماع فرج زوجته) يعني لمانع منه ككبر سن، أو سحر.
(قوله: أو سحر) قال في البحر: فهو عنين في حق من لايصل إليها لفوات المقصود في حقها، فإن السحر عندنا حق وجوده وتصوره وتكون أثره، كما في المحيط".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200799
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن