بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تکافل پالیسی اختیار کرنے کا حکم


سوال

عرض یہ ہے کہ آپ کا ادارہ تکافل کو ناجائز کہتا ہے اور دوسرے دارالافتاء اسے جائز کہتے ہیں اور بقول آپ کے حرمت اور حلت میں اختلاف کی صورت میں عوام کےلیے احتیاط حرمت والے حکم میں ہے۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی حلت کا فتوی دینے والے علماء پر اعتماد کرتے ہوئے تکافل پالیسی اختیار کرے یا اس میں ملازمت کرے تو وہ گنا ہ گار ہوگا یا نہیں؟ اگر ہوگا تو کیوں؟

جواب

جو علماء تکافل کو ناجائز کہتے ہیں ان کے نزدیک اگر کوئی تکافل پالیسی لے گا یا ملازمت اختیار کرے گا تو وہ گناہ گار ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143906200095

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں