عرض یہ ہے کہ آپ کا ادارہ تکافل کو ناجائز کہتا ہے اور دوسرے دارالافتاء اسے جائز کہتے ہیں اور بقول آپ کے حرمت اور حلت میں اختلاف کی صورت میں عوام کےلیے احتیاط حرمت والے حکم میں ہے۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی حلت کا فتوی دینے والے علماء پر اعتماد کرتے ہوئے تکافل پالیسی اختیار کرے یا اس میں ملازمت کرے تو وہ گنا ہ گار ہوگا یا نہیں؟ اگر ہوگا تو کیوں؟
جو علماء تکافل کو ناجائز کہتے ہیں ان کے نزدیک اگر کوئی تکافل پالیسی لے گا یا ملازمت اختیار کرے گا تو وہ گناہ گار ہوگا۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143906200095
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن