بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تنگ اور چست لباس پہننا اور اس میں نماز پڑھنا


سوال

کیا اتنا تنگ لباس پہننا جائز ہے جس سے جسم کی ساخت معلوم ہوتی ہو؟ ایسے لباس میں نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

لباس  کا کم ازکم درجہ یہ ہے کہ وہ ( لباس) ساتر ہو، یعنی جس حصے کا چھپانا واجب ہے وہ کھلا نہ رہے، نہ ایسا باریک ہو کہ جسم نظر آنے لگے اور نہ اتنا چست ہو کہ بدن کے جن اعضا کو چھپانا ضروری ہے ان میں سے کسی کی بناوٹ اور حجم نظر آجائے، لہٰذا اگر لباس اتنا چست اور تنگ ہو کہ اس سے مستورہ اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو تو اس کو پہننا، اسے پہن کر نماز پڑھنا، باہر نکلنا، لوگوں کو دکھانا  سب ناجائز ہے اور اس حالت میں دوسروں کا اسے دیکھنابھی ممنوع ہے۔

 اگر کسی نے ایسا لباس پہن لیا ہو  اور اس دوران نماز کی ادائیگی کرنی ہو تو بڑی چادر سے پورا جسم چھپاکر نماز ادا کرلی جائے۔ البتہ اگر ایسے چست لباس میں نماز ادا کی جس سے مستور اعضاء  کی ساخت ظاہر ہورہی ہو تو نماز ادا ہوجائے گی لیکن مکروہ  ہوگی، اور واجب الاعادہ نہ ہوگی، یعنی اسے دُہرانے کا حکم نہیں دیا جائے گابشرطیکہ وہ لباس باریک نہ ہو کہ مستور اعضاء دکھائی دیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: لَايَصِفُ مَا تَحْتَهُ) بِأَنْ لَايُرَى مِنْهُ لَوْنُ الْبَشَرَةِ احْتِرَازًا عَنْ الرَّقِيقِ وَنَحْوِ الزُّجَاجِ (قَوْلُهُ: وَلَايَضُرُّ الْتِصَاقُهُ) أَيْ بِالْأَلْيَةِ مَثَلًا، وَقَوْلُهُ: وَتَشَكُّلُهُ مِنْ عَطْفِ الْمُسَبَّبِ عَلَى السَّبَبِ. وَعِبَارَةُ شَرْحِ الْمُنْيَةِ: أَمَّا لَوْ كَانَ غَلِيظًا لَايُرَى مِنْهُ لَوْنُ الْبَشَرَةِ إلَّا أَنَّهُ الْتَصَقَ بِالْعُضْوِ وَتَشَكَّلَ بِشَكْلِهِ فَصَارَ شَكْلُ الْعُضْوِ مَرْئِيًّا فَيَنْبَغِي أَنْ لَايَمْنَعَ جَوَازَ الصَّلَاةِ لِحُصُولِ السَّتْرِ. اهـ." (كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة، ١/ ٤١٠)

في عمدة القاري:

"أَنه صَلَّی اللَّه علیه وَسَلَّم  حذر أهله وَجَمِیع الْمُؤْمِنَات من لِبَاس رَقیق الثِّیاب الواصفة لأجسامهن بقوله: کم من کاسیة في الدنیا عاریة یوم القیامة، وفهم منه أن عقوبة لابسة ذلک أن تعری یوم القیامة". ( باب ماکان النبي صلی الله علیه وسلم یتجوز من اللباس ، ج: ۲۲، ص: ۲۰، ط: دار إحیاء التراث العربي)

في تکملة فتح الملهم:

"فکل لباس ینکشف معه جزء من عورة الرجل والمرأة لاتقره الشریعة الإسلامیة ..... وکذلک اللباس الرقیق أو اللا صق بالجسم الذي یحکي للناظر شکل حصة من الجسم الذي یجب ستره، فهو في حکم ماسبق في الحرمة وعدم الجواز". ( کتاب اللباس والزینة:۴/۸۸)   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201591

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں