بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم میراث کی ایک صورت کاحکم


سوال

ہماری والدہ کا انتقال ہوا ورثاء میں شوہر اور ایک بیٹی دس بیٹے تھے، ملکیت میں ایک مکان تھا جو کہ کرائے پر لگایا ہوا تھا، لیکن میراث کی تقسیم کے بغیر اس کا کرایہ والد صاحب وصول کرتے رہے، کیونکہ والد صاحب نے دوسری شادی کی تھی اور اس میں اولاد نہیں تھی وہ کرایہ اپنی ضرورریات میں خرچ کرتے رہے لیکن والد صاحب کا تقریبا 2012 میں انتقال میں ہوگیا جوہماری والدہ کے بعد ہوا اور اسی طرح ان کے بعد ہمارے ایک بھائی کا انتقال ہو گیا جو کہ شادی شدہ تھا اولاد نہیں تھی ان کی ایک بیوہ ہیں اب موجودہ ورثاء میں ایک بیٹی اور 9بھائی ہیں اور والدہ کے مکان کی مالیت تقریبا 3کروڑ ہو گی اب اس کو تقسیم کرنا ہے کیا والد مرحوم کا حصہ اور انتقال شدہ بھائی کاحصہ نکا لا جائےگا یا نہیں ؟اگر نکالا جائے تو کس کو دیا جائے گا؟ اور ہماری حقیقی والدہ کی میراث سے کیا ہماری سوتیلی ماں کو حصہ ملے گا؟ کیونکہ اگر جلدی تقسیم ہو تی ہمارے بھائی کو بھی اپنی زندگی اور والد صاحب مرحوم کو بھی اپنی زندگی میں حصہ مل جاتا ؟

جواب

مذکورہ صورت میں آپ کی سوتیلی والدہ کو  آپ کی والدہ سے تو  نہیں البتہ آپ کے والد یعنی اپنے شوہر سے حصہ ملے گا اور اسی طرح مرحوم بھائی کی بیوہ کو  بھی آپ کی والدہ سے نہیں البتہ اپنے شوہر سے سے حصہ ملے گا، تقسیم کی صورت یہ ہوگی: کل ترکہ کو 25536 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جن میں سے ہر بیٹے کو 2542 حصے بیٹی کو 1271 حصے بیوہ(والدہ کی بیوہ) کو 798 حصے بہو (مرحوم بیٹے کی بیوہ) کو 589 حصے ملیں گے. یعنی کل ترکہ تین کروڑ کو درج ذیل تفصیل کے مطابق تقدیم کریں گے: ہر بیٹے کو 2986371 بیٹی کو 1493185.5 بیوہ کو 937500 بہو کو 691065 روپے ملیں گے. واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143602200038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں