بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم میراث کی ایک صورت کا حکم


سوال

1. والد کا مکان والد کے انتقال کے بعد کل 11 اولاد 5 بہنیں اور چھ بھائی اور والدہ اپنی رضا مندی سے اپنا حصہ دو چھوٹے بھائیوں کو دیتے ہیں, بعد ازاں اس مکان کا ایک حصہ دو چھوٹے بھائیوں کے علاوہ دوسرا بھائی دس لاکھ میں خرید لیتا ہے، اس رقم سے بڑے بھائی دو چھوٹے بھائیوں کے لیے ایک فلیٹ نو لاکھ کا خرید لیتے ہیں جب کہ ایک لاکھ اپنے پاس امانت رکھ لیتے ہیں. اور والد کے مکان کا دوسرا حصہ ایک دوسرا بھائی دو لاکھ کا خرید لیتا ہے جس میں سے لاکھ بڑے بھائی کو دیتا ہے اور لاکھ بقایا ہیں. سوال یہ ہے کہ میراث پر قبضہ سے پہلے وارثوں کا اپنے چھوٹے بھائیوں کو ھبہ کرنا درست ہو گیا؟اگرنہیں تو اب تقسیمِ  میراث کی کیا صورت ہوگی؟

2. فلیٹ میں دو چھوٹے بھائی رہ رہے ہیں ان کا اس میں رہنا درست ہے؟سب بہن بھائی فلیٹ کو بیچے بغیر چھوٹے بھائیوں کو دینا چاہیں تو اس کی کیا صورت ہوگی؟

3. اور کیش رقم جو تین لاکھ (ایک لاکھ نہیں ملا)اس کا کیا ہوگا سب رضا مندی سے بھائیوں کو دے سکتے ہیں یا پہلے قبضہ کرنا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ  میراث  میں      قابلِ  تقسیم  چیز کو قبضہ کیے بغیر  کسی  وارث کا اپنا حصہ  دوسرے  کو دینے سے شرعاً ہبہ (گفٹ) نافذنہیں ہوتا ۔  صورتِ مسئولہ میں  سب  ورثاء نے  تقسیم اور قبضہ سے پہلے اپنا اپنا حصہ مشترکہ طور پر  دو چھوٹے بھائیوں کوہبہ کیاہے ؛ لیکن یہ ہبہ شرعی اصول اور ضابطہ کے مطابق نہیں ہوا ، کیوں کہ  اگر کوئی وارث وراثت سے حصہ نہ لینا چاہے اور متروکہ جائیداد وغیرہ قابل تقسیم ہو تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے جائیداد کی تقسیم ہو اور ہر وارث اپنے حصہ پر قابض ہوجائے ، پھر جو وارث کسی کو اپنا کل یا بعض حصہ دینا چاہے دے دے ،  اسی طرح اگر کوئی وارث دولوگوں کو اپنا حصہ دینا چاہے اور اس کا حصہ بھی قابلِ  تقسیم ہو تو ہر ایک کو اس کا حصہ متعین کرکے الگ الگ دے ، مشترکہ طور پر نہ دے اور صورتِ  مسئولہ میں بہ ظاہر دونوں میں سے کسی بات پر عمل نہیں ہوا. 

لہذا     اس مکان کی پہلے  قیمت لگائی جائے اور  تمام  ورثا کو اس کی قیمت دے دی جائے یا   اس کے حساب سے حصہ مکمل قبضہ میں دے دیا جائے، پھر وہ اپنی مرضی سے جتنا چاہیں  اور جس کو چاہیں دے سکتے ہیں، مکان بیچنا ضروری نہیں۔

"وهبة حصة من العین لوارث أو لغیره تصح فیما لایحتمل القسمة، ولاتصح فیما یحتملها، قنیة في باب هبة الدین من کتاب الهبة". (واقعات المفتین، ص: ۱۱۰، ط: مصر)

"وشرائط صحتها في الموهوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع..." الخ

(االدر المختار مع رد المحتار، کتاب الهبة، ۸: ۴۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

" لو قال الوارث: ترکت حقي لم یبطل حقه؛ إذ الملک لایبطل بالترک". (الأشباه والنظائر ۲؍۱۶۰ کراچی)

(۲)  دونوں چھوٹے بھائی اگر سب کی اجازت سے اس مکان میں رہ رہے ہیں تو ان کا رہنا وہاں درست ہے ، نیز اگر سب بہن بھائی فلیٹ کو بیچے بغیر چھوٹے بھائیوں کو دینا چاہیں  تو اگر مکان قابلِ تقسیم  نہیں ہے تو حصوں کے تعین کے بعد چھوٹے بھائیوں کو دینا درست ہو گا۔

(۳) کیش رقم بھی حصوں کے تناسب سےسب کو دی جائے گی اس کے بعد وہ  بھائیوں کو دے سکتے ہیں۔

ورثاء میں اگر یہی مذکورہ  افراد   یعنی مرحوم کی بیوہ ، چھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں تو     اگر  کوئی مرحوم والد کے ذمہ  قرضہ ہو اس کو ادا کرنے کے بعد  کوئی جائز وصیت ہو اس کو ترکہ کے ایک تہائی سے مکمل کرنے کے بعد    بقیہ ترکہ کو ۱۳۶ حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو ۱۷ حصے  ، ہر بیٹے کو ۱۴ حصے اور ہر بیٹی کو ۷ حصے ملیں گے۔

یعنی فیصد کے اعتبار سے بیوہ کو 12.5 فیصد، ہر بیٹے کو  10.29 فیصد  اور بیٹی کو 5.14 فیصد  ملے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں