بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی نیت / وتر کے بعد دو نفل پڑھنا / غیبت کی معافی


سوال

1- تراویح کی نیت کیسے کرتے ہیں ؟  دو رکعت نفل یا دو رکعت سنت؟

2-  تراویح کے بعد جب وتر پڑھ لیں تو دو نفل ادا کرتے ہیں کیا وہ لازم ہے؟

3- سنا ہے کہ ہر گناہ اللہ معاف کردیتا ہے، مگر حقوق العباد یہ صرف بندے کا معاملہ  یعنی اگر ہم سے کسی کی برائی، غیبت ہوجائے اور اگر ہم معافی مانگیں تو کیا گناہ معاف ہوجائے گا؟  یا اس بندے کے پاس جا کر مانگنا ضروری ہے؟

جواب

1- تراویح کی نماز، رمضان کے قیام اللیل، یا تراویح  یا سنت یا امام کی نماز کی نیت کرنے سے ادا ہوجائے گی، نیز مطلق نفل یا سنت کی نیت کر لے تو یہ بھی جائز  ہے، البتہ بہتر یہ ہے متعین کرکے نیت کرلے کہ ”میں دو رکعت تراویح کی نماز پڑھنے کی نیت کرتا ہوں“ اگر امام کے پیچھے ہو تو اس کا اضافہ کردے کہ” میں دو رکعت تراویح کی نماز امام کے پیچھے اقتدا  کرکے ادا کرنے کی نیت کرتا ہوں“۔

2۔ تراویح میں وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا لازم نہیں ہیں, وتر کے بعد  نفل پڑھنا جائز ہے  ، اور اجر وثواب کا باعث ہے.

3.  جس کی غیبت یا برائی کی ہے اس بندے سے معافی مانگ لی جائے؛ کیوں کہ حقوق العباد میں سے ہے، ہاں یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کو پورا معاملہ بتایا جائے، بس عمومی انداز میں کہہ دیا جائے کہ اگر کبھی آپ کی حق تلفی ہوئی ہو  تو آپ معاف کردیں یا کوئی اور انداز اختیار کرلیں، الغرض دنیا میں اس  سے معاف کروالیں، اگر اس کا ملنا مشکل ہو تو اللہ سے معافی مانگنے کے ساتھ اس کے حق میں کثرت سے استغفار کریں اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 417):
"(وكفى مطلق نية الصلاة) وإن لم يقل لله (لنفل وسنة) راتبة (وتراويح) على المعتمد، إذ تعيينها بوقوعها وقت الشروع، والتعيين أحوط". 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 288):
"ومنها نية التراويح أو نية قيام رمضان، أو نية سنة الوقت.
ولو نوى الصلاة مطلقاً، أو نوى التطوع، قال بعض المشايخ: لايجوز؛ لأنها سنة والسنة لاتتأدى بنية مطلق الصلاة، أو نية التطوع واستدلوا بما روى الحسن عن أبي حنيفة أن ركعتي الفجر لاتتأدى إلا بنية السنة، وقال عامة مشايخنا: إن التراويح وسائر السنن تتأدى بمطلق النية؛ ولأنها وإن كانت سنةً لاتخرج عن كونها نافلةً، والنوافل تتأدى بمطلق النية إلا أن الاحتياط أن ينوي التراويح، أو سنة الوقت، أو قيام رمضان احترازاً عن موضع الخلاف". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں