بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح اور اجماع کے منکر کا حکم


سوال

1۔ جو شخص نماز تراویح کا انکار کرے اور کہے کی تراویح نام کی کوئی نماز نہیں ایسےشخص کا کیا حکم ہے؟

۲. اجماع کی شرعی حیثیت کیا ہے جو شخص اجماع کا منکر ہو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔تراویح کی نماز سنتِ مؤکدہ ہے، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااجماع ہوچکاہے۔ اگر کوئی شخص  تراویح کا منکر ہو تو وہ سنت اور اجماعِ صحابہ کرام کا مخالف، اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان،سخت گم راہ اور آخرت کے لحاظ سے تباہی اور ہلاکت میں پڑنے والا ہے۔

واضح رہے کہ یہ جواب بصورتِ صدقِ سوال ہے، اگر کوئی شخص تراویح کا منکر ہے تو باحوالہ ثبوت کے ساتھ اس کے الفاظ دارالافتاء میں پیش کرنے چاہییں، تاکہ الفاظ کا سیاق سباق اور طرزِ استدلال دیکھ کر حکم لگایا جاسکے۔ "طحطاوی علی مراقی الفلاح" میں ہے:

''قوله: ( التراويح سنة ) بإجماع الصحابة ومن بعدهم من الأمة، منكرها مبتدع، ضال، مردود الشهادة، كما في المضمرات''۔ (1/270مصر)

2۔اجماع کی کئی اقسام ہیں، جس کی مکمل تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے، یہاں تفصیل کا موقع نہیں، ان میں سب سے قوی اور مضبوط اجماع صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع ہے، یہ اجماع حجیتِ قطعیہ ہے، اور اس کا منکر نہایت ہی گمراہ ہے اور حدِکفر کے قریب ہے۔(شرح العقائدمع النبراس،ص:566،ط:لاہور)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں