بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارتی قرض کی زکاۃ کی ادائیگی کا حکم


سوال

میں کارگو سروسز کے کاروبار سے وابستہ ہوں ،جس میں میں نے کوئی سرمایہ گھر سے یا والد صاحب سے یا اپنے کسی بہن بھائی سے نہیں لیا تقریباً پندرہ سال سے میں خود یہ کاروبار چلا رہا ہوں ۔اللّہ کے فضل سے ابھی دو سال پہلے میں نے کمیٹی نکلنے اور زیورات کی فروخت سے حاصل رقم سے ایک پلاٹ خریدا گھر بنانے کی نیت سے اس پر زکاۃ کا کیا حکم ہے؟

2۔ اور ایک ماہ پہلے نقد رقم سے ایک گاڑی ذاتی و گھر کے استعمال کے لیے خریدی ہے اس پر زکاۃ  کا حکم کیا ہے ؟

3۔میرے کاروبار کی نوعیت یہ ہے میں بالکل بھی ٹھیک سے یہ معلوم نہیں کر پاتا مجھے کتنا پیسا اپنے گاہکوں سے لینا ہے اور کتنا مجھے مارکیٹ میں ادا کرنا ہے؟ ہاں قریب قریب رقم ضرور نکل آئے گی، دوسرا میں نے اپنے ایک دوست کسٹمر کو جو کاروبار میں سہولت دے رکھی ہے جب تک وہ مالی طور پہ مستحکم نہیں ہوتا میں اُس سے رقم کا تقاضا نہ کروں گا، اگر ہم میں سے کوئی ایک بھی پہلے فوت ہوجائے تو میں نے معاف کیا، یہ میری نیت ہے، اُس کی طرف تقریباً آٹھ لاکھ وصولی ہے، اُس رقم کو میں زکاۃ والی رقم میں شامل کروں گا یا نہیں؟

4۔اور بعض جگہ میرے کچھ کسٹمر کئی سالوں سے میری کاروباری رقم ادا نہیں کررہے اگر وہ کبھی بھی ادانہ کریں تو کیا ایسی رقم پر زکاۃ بنتی ہے ؟

برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں اور ہو سکے تو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے مجھے دارالافتاء کافون نمبر بھی بھیج دیں اگر ٹھیک سے جواب نہ سمجھ پایا تو کال کرکے پوچھ سکوں۔

جواب

1۔پلاٹ پر زکاۃ  اُس صورت میں واجب ہوتی ہے جب یہ پلاٹ تجارت (بیچ کر نفع کمانے) کی نیت سے خریدا جائے، اگر ذاتی استعمال کے ارادے سے کوئی پلاٹ وغیرہ خریدا جائے تو اس کی مالیت پر زکاۃ لازم نہیں ہے۔ لہٰذا آپ نے جو پلاٹ گھربنانے کی نیت سے لیا ہے اس پر زکاۃ واجب نہیں ہے۔

2۔ذاتی استعمال کے لیے خریدی گئی گاڑی پر بھی زکاۃ واجب نہیں ہے۔

3۔آپ کی جو رقم تجارتی قرض کے طور پر گاہکوں کے ذمہ لازم ہے، اس کاحساب کرنا ضروری ہے ،اور اس تجارتی قرض کی رقم کی زکاۃ ادا کرنا آپ پر لازم ہے،اگر ہرسال زکاۃ  کی ادائیگی کے دن اس رقم کی زکاۃ ادا کردیں یہ بھی درست ہے، اس صورت میں رقم کے وصول ہونے پر دوبارہ زکاۃ لازم نہ ہوگی۔ اور اگر فوری طور پر اس رقم کی زکاۃ ادا نہ کریں تو جیسے ہی وہ رقم وصول ہوگی اس کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ بھی ادا کرنا لازم ہوگی۔مذکورہ رقم کاحساب کرکے آپ پر جوقرض لازم ہے اس قرض کو منہا کیاجائے گا۔ بہرحال جتنا ہوسکے آپ واجب الوصول اور واجب الادا قرضوں کا حساب بھی رکھیں، اور اگر پوری کوشش کے باوجود بھی یقینی طور پر مقدار متعین نہ ہو تو احتیاطاً کچھ زیادہ رقم زکاۃ میں ادا کردیا کریں۔

آپ کی یہ نیت کہ اگر آپ دونوں میں سے کسی کا پہلے انتقال ہوجائے تو آپ نے وہ رقم معاف کی، اس طرح  کی نیت رکھنے سے یا اس طرح کہنے سے وہ رقم معاف نہیں ہوتی، بلکہ تاحال وہ رقم آپ کی رقم ہے اور اس پر زکاۃ واجب ہے، البتہ آپ کو اجازت ہے کہ جب تک دوست قرض کی رقم ادا نہ کرے تب تک آپ زکاۃ نہ دیں، لیکن جب وہ ادا کردے تو گزشتہ تمام سالوں کے حسابات کے مطابق اس رقم کی زکاۃ واجب ہوگی۔ اور آپ چاہیں تو سال بہ سال زکاۃ ادا کرتے رہیں، بہتر صورت یہی ہے، اس میں حساب رکھنا بھی آسان ہے، اور بعد میں یک مشت زیادہ مقدار زکاۃ ادا کرنے کا بوجھ بھی نہیں ہوگا۔

4۔ جن لوگوں نے تاحال آپ کی رقم ادا نہ کی آپ اس رقم کی وصولی کا انتظار کرسکتے ہیں، چاہے وہ رقم یک مشت حاصل ہویاتھوڑی تھوڑی ، اگر وہ کئی سالوں کے بعد وصول ہوئی ہے تو آپ گزشتہ تمام سالوں کی زکاۃ حساب کرکے ادا کردیں۔ فقط واللہ اعلم

براہِ راست دارلافتاء سے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں :

021-34925352


فتوی نمبر : 144008201094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں