بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارتی بائیکاٹ کا حکم


سوال

ایک مسلم معاشرے میں رہتے ہوے میرا آپ سے سوال ہے غلہ منڈی میں ایک سات رکنی یونین ہے اگر کوئیدکاندار انکے کسی حکم کو نہیں مانتا چاہے وہ درست ہے یا غلط تو اس کا بائیکاٹ کردیا جاتا ہے یعنی کوئیدکاندار اس دکاندار سے نہ کوئی مال خرید سکتا ہے نہ کوئیبیچ سکتا ہے اگر کوئی دکاندار اسکو مال بیچتا یا خریدتا ہے تو اسکا بھی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ اکثر مال ادھار بکتا ہے اگر کوئی وقت پر رقم نہ دے سکے تو اسکا بھی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے، ایک دکاندار نے ایک رکن کو گالی دے دی تو اسکا بھی بائیکاٹ کر دیا گیا ۔جسکا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اسکا کاروبار تقریبا تباہ ہو جاتا ہے اس لیے ہر کوئی انکی درست یا غلط بات ماننے پر مجبور ھوتا ہے۔ (١) کیا ایسا بائیکاٹ کرنا شریعت کے لحاظ سے درست ہے؟ ٢) اگر غلط ہے تو ان کے لیے کیا حکم ہے؟ تفصیل سے وضاحت فرما دیں ٣)بلا وجہ شرعی کاروباری بائیکاٹکرنےوالوں کے لیے قرآن و حدیث میں کیا حکم ہے؟

جواب

بصورت مسئولہ جب تک بائیکاٹ کی کوئی شرعی وجہ نہ ہو، مذکورہ وجوہات کی بنا پر تاجروں کی یونین کا کسی دکان دار سے بائیکاٹ کرنا درست نہیں ہے، خصوصاً جب کوئی دکان دار اپنی غلطی تسلیم کررہاہو ایسی حالت میں مذکورہ وجوہات کی بنا پر بائیکاٹ کرنا جائزنہیں ہے، قرآن وحدیث میں مسلمانوں کو آپس میں صلح، صفائی اور جوڑ کے ساتھ رہنے کا حکم ہے، احادیث مبارکہ میں شرعی وجہ کے بغیر کسی مسلمان سے بائیکاٹ کرنے پربہت سی وعیدیں اور اس کی ممانعت آئی ہے۔ اگرکوئی شخص کبیرہ گناہ میں مبتلاہو ، منع کرنے کے باوجود باز نہ آئے اور اس کے اس فعل سے مسلم معاشرے پرمنفی اثرات پڑتے ہوں توان حالات میں اس کے بائیکاٹ کی اس شرط پراجازت ہے کہ مقصد صرف اس کی اصلاح اور تنبیہ ہو، اوراس کے باز آنے کی امید بھی ہو۔چناںچہ اس کے باز آنے کی صورت میں قطع تعلق کی اجازت ہرگزنہ ہوگی۔ تاہم گالم گلوچ کسی بھی مسلمان کو روا نہیں ہے، ایمان اور عمل کی کمزوری کا نتیجہ ہے لہذا دکان دار کا گالی دینا بھی ناجائزتھا۔ بہرحالتاجروں کی مذکورہ یونین کوچاہیے کہ علماء سے رجوع کرکے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے تاجروں کے لیے لائحہ عمل طے کرے اور حتی الامکان صلح وجوڑ پیداکرنے والی یونین کا کردار ادا کرے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143606200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں