دو شادیاں کرنے کے باوجود اولاد نہیں ہوئی، تیسری شادی کرنا جائز ہے؟
اگر مذکورہ شخص تیسری شادی کے بعد تینوں بیویوں میں عدل (برابری وانصاف) قائم رکھ سکتاہےتو اس کے لیے تیسری شادی کی اجازت ہے۔
﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ذٰلِكَ اَدْنٰى اَلَّا تَعُوْلُوْا﴾ (النساء:3)
ترجمہ: اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے.(بیان القرآن )
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں ہے جب وہ انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص کے پاس جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری یا تیسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری یا تیسری شادی کرنا جائز نہیں ۔
سنن ابی داود میں ہے:
''عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل''۔ ( سنن أبي داؤد 3 / 469)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی.فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200934
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن