میرا بیٹا بیس سال کا ہوگیا ہے، مسجد کے ساتھی کہتے ہیں کہ اس کا نکاح کر دو ،ورنہ یہ جو گناہ کرے گا اس کا بوجھ تم پر ہوگا، مجھے کیا کرنا چاہیے؟
بچہ جب بالغ ہوجائے تو جلد سے جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردینا چاہیے بشرطیکہ لڑکا اپنی بیوی کا نفقہ دینے پر خود قادر ہو یا کوئی ( والد وغیرہ) اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو، اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔حدیث شریف میں ہے:
'' وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»''۔ (مشكاة المصابيح (2/ 939)
ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔
''وعن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً ولم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان''۔ (مشكاة المصابيح (2/ 939)
ترجمہ: تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔
لہٰذا اگر آپ کا بیٹا بیوی کا نفقہ ادا کرسکتاہے، یا آپ نکاح کے بعد اس کے نفقے کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں،تو مناسب رشتہ ملنے کے بعد فوراً نکاح کردیں۔ جب تک برابری کا رشتہ میسر نہ ہو یا بیوی کا نفقہ ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو تو نکاح میں تاخیر کی جاسکتی ہے۔ اس صورت میں اگر لڑکے کے گناہ میں واقع ہونے کا اندیشہ ہو تو حدیث شریف کی روشنی میں اس کاعلاج کثرت سے روزے رکھنا ہے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909200778
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن