بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو طلاق دینے کے بعد سالی سے نکاح کرنا


سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو لڑائی کے دوران پہلی طلاق دی۔ پھر کچھ دن بعد رجوع کرلیا۔ اور بیوی کو عمرہ کے لیے ساتھ لے گیا، کیوں کہ شوہر کی جاب سعودی عرب میں تھی۔ وہاں مدینہ منورہ میں پھر بیوی کی بد زبانی کی وجہ سے لڑائی ہوگئی۔ بیوی کو واپس پاکستان بھیج دیا، کچھ دن بعد بیوی نے شوہر کو میسج کیا تو اس کے جواب میں شوہر نے کہہ دیا کہ میری طرف سے تم فارغ ہو، مجھ سے رابطہ مت کرو۔ اس بات کا فتویٰ لیا اور 6 ماہ بعد شوہر جب پاکستان آیا تو پھر اسی عورت سے پھر نکاح کرلیا بوجہ بچوں کے۔ اس کے ایک سال گزر جانے کے بعد پھر فون پہ لڑائی ہوئی اور بیوی 6 ماہ سے میکے میں بیٹھی ہوئی تھی اور کوئی خلوت نہیں ہوئی۔ لڑائی کے دوران شوہر نے کہا کہ تمہیں طلاق بھیج دوں گا۔ اور کچھ ہی دیر بعد شوہر نے پھر فون کیا جوکہ اس کی بہن یعنی سالی نے اٹھایا۔ شوہر نے روزے اور غصے کی حالت میں کہا کہ میرے جو پیسے ہیں تمہارے ابو کے پاس، اس سے 30 ہزار (ایف)(اسی نام سے شوہر مخاطب کرتا ہے بیوی کو)کو دے دو ، اور اور اس کو طلاق ہے۔ یہ پیغام سالی نے دے دیا۔ غالباً وہ خود بھی سن رہی تھی، فون کی آواز پاس ہونے کی وجہ سے۔

اب اس مسئلہ کی وضاحت چاہیے کیا تین طلاق ہوگئیں؟  کیا وہ عورت عدت کرے گی؟ ان کے واپسی کی کوئی صورت ہے بغیر حلالہ کے؟ دو بچے ہیں چھوٹے، جو کہ وہ سالی ہی سنبھالتی ہے۔اسی کو ماں بھی سمجھتے ہیں۔ بوجہ ماں کا نفسیاتی بیمار ہونا۔اور بچوں پہ توجہ نہ  دینا۔ پہلی بات کہ کیا اس بیوی کی واپسی کا کوئی راستہ ہے؟اگر نہیں جو کہ مجھے ایسا لگتا ہے۔ تو سابقہ سالی سے نکاح ہو سکتا ہے؟ اور کتنے عرصے بعد نکاح جائز ہوگا۔ 

جواب

مذکورہ شخص کی بیوی پر دو طلاقیں پہلے ہی واقع ہو چکی تھیں، پھر جب اس نے غصے میں فون پر یہ کہا کہ اس کو طلاق ہے تو اس سے اس کی بیوی پر تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی، نکاح ختم ہو گیا، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح کرنا بھی جائز  نہیں،اس عورت پر عدت بھی لازم ہو گی یعنی تین ماہواری اگر حمل نہ ہو۔

اب اگر مذکورہ شخص اپنی سالی سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو جب تک اس شخص کی مطلقہ بیوی عدت میں ہے اس وقت تک سالی سے نکاح کرنا جائز نہیں، اپنی مطلقہ بیوی کی عدت پوری ہونے کے بعد سالی سے نکاح کر سکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200746

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں