بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی طرف سے زکاۃ اپنی ساس کو دینے کا حکم/ صدقات واجبہ اور نافلہ کی وضاحت اور سادات کو دینے کاحکم


سوال

میرے دو مسئلے ہیں:

1۔  پہلا عرض یہ ہے کہ  میں سید ہوں اور میری بیوی غیر سید ہے۔میری بیوی کے پاس 10 تولے سونا ہے جس کی زکات نومبر 2018 میں واجب الادا ہو گئی۔ میں اپنی بیوی کی طرف سے زکات  اس کو بتا کر دے سکتا ہوں؟ آیا میں اپنی بیوی کی طرف سے زکات اپنی ساس کو دے سکتا ہوں جو مستحق ہیں، اور غیر سید ہیں؟

2۔  دوسرا مسئلہ یہ کہ سادات کون سا صدقہ کھا سکتے ہیں؟  نیز صدقہ واجب اور نفل کی وضاحت تفصیل سے فرما دیں، تاکہ سمجھ آ جائے؟

جواب

1)آپ اپنی بیوی کی اجازت سے ان کی زکات ان کی طرف سے ادا کرسکتے ہیں۔

2) اپنی بیوی کی زکات  کی ادائیگی کی صورت میں  آپ وہ زکات  اپنی ساس یعنی بیوی کی والدہ کو نہیں دے سکتے ہیں، چاہے وہ مستحق اور غیر سید ہوں، کیوں کہ وہ زکات اصل میں آپ کی بیوی کی ہے اور زکات جس کی طرف سے ادا کی جارہی ہو اس کے اصول و فروع (والدین اور اولاد) کو دینا جائز نہیں ہے۔

3)سادات صدقاتِ نافلہ کھا سکتے ہیں، صدقاتِ واجبہ نہیں کھا سکتے۔

4)صدقاتِ واجبہ سے مراد وہ صدقات ہیں جن کی ادائیگی شریعت کی طرف سے آدمی کے ذمہ لازم ہوتی ہے، جیسے زکات، صدقہ فطر، عشر، خراج، کفارات، نذر (منت) اور حرم کے شکار  کی جزا وغیرہ سب صدقاتِ واجبہ ہیں۔ ان کے علاوہ وہ صدقات جو شریعت مطہرہ کی طرف سے آدمی کے ذمہ   واجب نہیں ہوتے، بلکہ آدمی صرف ثواب کی نیت سے  صدقات ادا کرتا ہے وہ "صدقاتِ نافلہ" کہلاتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 346):

"(ولا) إلى (من بينهما ولاد)

 (قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال، هداية۔ والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادةً وولاداً مغرب، أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما، وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب، كأولاد الأولاد، وشمل الولاد بالنكاح والسفاح، فلا يدفع إلى ولده من الزنا ولا من نفاه كما سيأتي، وكذا كل صدقة واجبة كالفطرة والنذر والكفارات، وأما التطوع فيجوز بل هو أولى، كما في البدائع، وكذا يجوز خمس المعادن؛ لأن له حبسه لنفسه إذا لم تغنه الأربعة الأخماس، كما في البحر عن الإسبيجابي، وقيد بالولاد؛ لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة.

وفي الظهيرية: ويبدأ في الصدقات بالأقارب، ثم الموالي ثم الجيران، ولو دفع زكاته إلى من نفقته واجبة عليه من الأقارب جاز إذا لم يحسبها من النفقة بحر وقدمناه موضحا أول الزكاة.

ويجوز دفعها لزوجة أبيه وابنه وزوج ابنته، تتارخانية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 350):

"(و) لا إلى (بني هاشم) ... (وجازت التطوعات من الصدقات و) غلة (الأوقاف لهم) أي لبني هاشم.

 (قوله: وجازت التطوعات إلخ) قيد بها؛ ليخرج بقية الواجبات كالنذر والعشر والكفارات وجزاء الصيد إلا خمس الركاز؛ فإنه يجوز صرفه إليهم، كما في النهر عن السراج". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں