بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی طرف سے زکاۃ دینا، ساس کو زکاۃ دینا، سادات کے لیے صدقہ لینا ، صدقہ واجبہ اور نافلہ


سوال

میرے دو مسئلےہیں :  پہلا  یہ ہے کہ  میں سید ہوں اور میری بیوی غیر سید ہے۔میری بیوی کے پاس 10 تولے سونا ہے جس کی زکاۃ نومبر 2018 میں واجب الادا ہو جائے گی۔ میں اپنی بیوی کی طرف سے زکاۃ اس کو بتا کر دے سکتا ہوں؟ آیا میں اپنی بیوی کی طرف سے زکاۃ اپنی ساس کو دے سکتا ہوں جو مستحق ہے اور غیر سید ہے؟

 دوسرا مسئلہ یہ کہ سادات کون سا صدقہ کھا سکتے ہیں؟ نیز صدقہ واجب اور نفل کی وضاحت فرما دیں؟

جواب

1۔۔ بیوی کی اجازت سے آپ اس کی طرف سے زکاۃ  ادا کرسکتے ہیں۔ باقی چوں کہ  اپنے اصول (والدین، دادا، نانا وغیرہ) وفروع (اولاد، ان کی نسل) کو زکاۃ  دینا جائز نہیں ہے؛  اس لیے آپ اپنی زکاۃ  تو اپنی ساس کو دے سکتے ہیں، لیکن اپنی بیوی کی زکاۃ  ساس (یعنی بیوی کی والدہ) کو نہیں دے سکتے۔

2۔۔ سید کو زکاۃ  دینا یا  سید کا زکاۃ  وصول کرنا  جائز نہیں ہے، یہی حکم صدقاتِ واجبہ کا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: '' یہ صدقات  (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے۔

 «إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد»۔ (صحيح مسلم (2/ 754)

باقی نفلی صدقات اور امداد وغیرہ سے سید کی مدد کی جاسکتی ہے،  بلکہ یہ بہت ثواب کا باعث ہے اور آپﷺ سے محبت کی علامت بھی ہے۔

” صدقہ “ کسی محتاج کو اللہ تعالیٰ سے تقرب کی نیت سے کوئی چیز دینے  کو کہتے ہیں۔ 

"صدقاتِ واجبہ ": زکاۃ، صدقہ فطر، نذر، منت، کفارات، فوت شدہ نماز وروزوں کے فدیہ کی رقم وغیرہ ہیں ۔ یہ مستحقِ زکاۃ کو دینا ہی ضروری ہے۔  جب کہ نفلی صدقات  غریب اور امیر  اور سید اور غیر سید سب  کو دے سکتے ہیں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (2/ 265):

'' (قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة» ''۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں