بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی رضامندی کے بغیر گھر سے دور ملازمت کرنا


سوال

کیا بیوی کی مرضی کے بغیر  گھر سے دور ملازمت کرنا جائز ہے، اور ملازمت چھوڑنا کیسا ہے؟ بیوی ملازمت چھوڑنے پر بضد ہے۔

جواب

واضح رہے کہ شوہر پر جس طرح بیوی کا نان ونفقہ ادا کرنا واجب ہے اسی طرح بیوی کی عزت وناموس کی حفاظت کرنا اور بیوی کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے بچانا ضروری ہے،  قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ} [التحريم: 6]

ترجمہ:  اے ایمان والو تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) اس آگ سے بچاؤ  جس کا ایندھن (اور سوختہ) آدمی اور پتھر ہیں جس پر تند خو (اور) مضبوط فرشتے (متعین) ہیں جو خدا کی (ذرا) نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو اُن کو حکم دیتا ہے . اور جو کچھ اُن کو حکم دیا جاتا ہے اس کو فوراً بجالاتے ہیں۔ (بیان القرآن) 

اس آیت کے تحت حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

’’اس آیت میں عام مسلمانوں کو حکم ہے کہ جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی،  پھر نارِ جہنم کی ہول ناک شدت کا ذکر فرمایا اور آخر میں یہ بھی فرمایا کہ جو اس جہنم کا مستحق ہوگا وہ کسی زور، طاقت، جتھہ یا خوشامد یا رشوت کے ذریعہ ان فرشتوں کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا جو جہنم پر مسلط ہیں جن کا نام ’’زبانیہ‘‘ ہے۔
لفظ ’’اَهْلِيْكُمْ ‘‘میں اہل و عیال سب داخل ہیں جن میں بیوی، اولاد، غلام، باندیاں سب داخل ہیں اور بعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر چاکر بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آگئی (کہ ہم گناہوں سے بچیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی کریں) مگر اہل و عیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں؟  رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اور جن کاموں کے کرنے کا تم کو حکم دیا ہے تم ان کے کرنے کا اہل وعیال کو بھی حکم کرو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا‘‘ ۔(از معارف القرآن)

لہذا اگر شادی کے بعد گھر سے دور رہنے میں بیوی کی عزت وناموس اور اس کی حفاظت کا انتظام نہ ہو، یا شوہر کے دور ہونے کی وجہ سے اس کے گناہ اور فتنہ میں  مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو  ایسی صورت میں شوہر  کے لیے بیوی ایسی حالت میں تنہا چھوڑ کر شہر سے دور ملازمت کرنا درست نہیں ہے، اور اگر یہ اندیشہ نہ ہو تو پھر شہر سے دور ملازمت کرنا جائز ہے، لیکن اس صورت میں  بیوی کی رضامندی کے بغیر چار مہینہ سے زیادہ  گھر سے دور  رہنا جائز نہیں ہے، اس میں بیوی کی حق تلفی ہے،  اور اگر بیوی بخوشی اِجازت دیتی ہے، تو چار ماہ سے زائد بھی رہ سکتے ہیں۔

حاصل یہ ہے کہ   بیوی کی عزت وناموس کے حفاظت کے انتظام کے  بعد گھر سے دور ملازمت کرنے کی صورت میں اگر چار ماہ سے کم میں گھر میں واپسی ہوجاتی ہے تو  اس میں بیوی کی حق تلفی نہیں ہے، اور چار ماہ سے زیادہ باہر رہنے کے لیے بیوی کی رضامندی ضروری ہے۔

 اپنے گردو پیش کے حالات کا جائزہ لے کر اپنے بڑوں اورسمجھ دار احباب سے مشورہ کرکے کوئی مناسب راستہ اختیار کرلیں، جس سے بیوی کی پریشانی بھی دور ہوجائے اور آپ کے روزگار کا مسئلہ بھی حل ہوجائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 203):
"ولايبلغ الإيلاء إلا برضاها.

(قوله: ولايبلغ مدة الإيلاء) تقدم عن الفتح التعبير بقوله: ويجب أن لايبلغ إلخ. وظاهره أنه منقول، لكن ذكر قبله في مقدار الدور أنه لاينبغي أن يطلق له مقدار مدة الإيلاء وهو أربعة أشهر، فهذا بحث منه كما سيذكره الشارح فالظاهر أن ما هنا مبني على هذا البحث تأمل، ثم قوله: وهو أربعة يفيد أن المراد إيلاء الحرة، ويؤيد ذلك أن عمر -رضي الله تعالى عنه- لما سمع في الليل امرأةً تقول:

فوالله لولا الله تخشى عواقبه                             لزحزح من هذا السرير جوانبه

فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد، فسأل بنته حفصة: كم تصبر المرأة عن الرجل؟ فقالت: أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لايتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها، ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں