بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی خدمت کرنا بالخصوص پاؤں دبانا


سوال

ہمارے دفتر میں دوستوں میں اس موضوع پر بات چلی کہ بیوی کے پاؤں دبانے چاہیے یا نہیں؟ میرا یہ نظریہ تھا کہ مرد چوں کہ خاندان کا سربراہ ہے اور ادب کے معاملے میں بیوی سے زیادہ تکریم کا حق رکھتا ہے، لہٰذا اس کا بیوی کے پاؤں دبانا مناسب نہیں، کچھ کی رائے تھی کہ بیوی کے پاؤں دبانے چاہیے؛ کیوں کہ یہ اچھے اخلاق کے زمرے میں آتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

شوہر کے لیے  بیوی کی خدمت اور بالخصوص پاؤں دبانے وغیرہ میں کچھ تفصیل ہے، اگر  نکاح میں مہر  کے طور پر یہ شرط ہو کہ شوہر بیوی کی خدمت کرے گا تو یہ جائز نہیں ہے، اس لیے  کہ یہ قلبِ موضوع ہے کہ اصل  شوہر کی خدمت تو بیوی کی ذمہ داری  ہے، اسی طرح اگر  بیوی تذلیل وتحقیر کے طور پر   شوہر سے  خدمت لے یا شوہر کی  بیوی کی خدمت کرنے میں اس کی تحقیر اور تذلیل ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر بیوی کی بیماری کی وجہ سے یا کسی اور عذر کی بنا پر ، یا باہمی رضامندی اور حسنِ معاشرت کے طور پر شوہر اپنی خوشی سے بیوی کی  خدمت کرے اور اس کے پاؤں دبائے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ یہ عمل پسندیدہ ہے، اور حسنِ معاشرت میں داخل ہے۔ 

لما في الدر المختار (3/ 106):

’’(و) في (خدمة زوج حر) سنةً (للإمهار) لحرة أو أمة؛ لأن فيه قلب الموضوع‘‘.

وفي رد المحتار: ’’(قوله: لأن فيه قلب الموضوع)؛ لأن موضوع الزوجية أن تكون هي خادمةً لا بالعكس، فإنه حرام؛ لما فيه من الإهانة والإذلال‘‘.

ولما في الدر المختار  (3/ 108):

’’أما الحر فخدمته لها حرام؛ لما فيه من الإهانة والإذلال‘‘.

وفي رد المحتار:’’فليسكل خدمةلا تجوز، وإنما يمتنع لو كانت الخدمة للتذلیل ... قال في البحر: وحاصله أنه يحرم عليها الاستخدام، ويحرم عليه الخدمة‘‘.

و لما في بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 278):

’’لما في التسليم من استخدام الحرة زوجها، وأنه حرام‘‘.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں