زید نے اپنی بیوی کو فون پر کہا: ایک دو تین جواب دے دیا، پھر کہا: ایک دو تین جواب دے دیا، تو اس صورت میں کون سی اور کتنی طلاق واقع ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے درج بالا الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، کیوں کہ مذکورہ الفاظ کی وضع نہ طلاق کے لیے ہے اور نہ ہی ان الفاظ کا استعمال عرفاً طلاق کے لیے ہوتا ہے۔
تنویر الابصار مع الدر امختار میں ہے:
"(و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به) نفسه عند ذكر العدد، و عند عدمه الوقوع بالصيغة".
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به) أي متي قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد بدليل ما أجمعوا عليه من أنه قال لغير المدخول بها: أنت طالق ثلاثاً طلقت ثلاثاً، و لو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد ... الخ
( مطلب الطلاق يقع بعدد قرن به لا به، ٣/ ٢٨٧، ط:سعيد)
البتہ اگر مذکورہ الفاظ طلاق کی نیت سے کہے تھے تو اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی، تاہم تجدیدِ نکاح کرنا جائز ہوگا اور آئندہ کے لیے صرف دو طلاق کا حق باقی رہے گا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200175
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن