بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنے اور دیگر نفلی عبادات کرنے کا حکم


سوال

کیا بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزے رکھ سکتی ہے؟  دلیلِ بھی دیں اور کیا نفلی عبادت بھی شوہر کی اجازت کے بغیر کر سکتی ہے؟

جواب

بیوی کے لیے شوہر کی موجودگی میں اس کی  اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، البتہ دیگر نفلی عبادات ( مثلاً نفل نماز، تلاوت وغیرہ) کرنے کے لیے شوہر کی اجازت لازمی تو نہیں ہے، لیکن اگر نفلی عبادت کی وجہ سے شوہر کی خدمت میں خلل واقع ہورہا ہو اور اس وجہ سے شوہر وقتی طور پر نفلی عبادت سے منع کرے تو ایسے موقع پر بیوی کو شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔

صحيح البخاري (7/ 30):

"باب صوم المرأة بإذن زوجها تطوعاً

حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: «لاتصوم المرأة وبعلها شاهد إلا بإذنه»".

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ عورت کو شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 184):

"أي: هذا باب في بيان حكم صوم المرأة حال كونها ملتبسةً بإذن زوجها في صومها. قوله: (تطوعاً) يجوز أن يكون بمعنى متطوعةً فيكون نصباً على الحال، ويجوز أن يكون صفة لمصدر محذوف أي: صوماً تطوعاً، وإنما قيد بإذن الزوج؛ لأنها لاتصوم التطوع إلا بإذنه؛ لأن حقه مقدم على صوم التطوع، بخلاف رمضان فإنه لايحتاج فيه إلى الإذن؛ لأنه أيضاً صائم ... والحديث أخرجه مسلم أيضاً، وفي لفظ لايحل للمرأة أن تصوم مكان لاتصوم، وفي لفظ أبي داود لاتصومن امرأة يوماً سوى شهر رمضان وزوجها شاهد إلا بإذنه، ورواه الترمذي أيضاً ولفظه: لاتصوم المرأة وزوجها شاهد يوماً من غير شهر رمضان إلا بإذنه. وقال: حديث أبي هريرة حديث حسن. وأخرجه ابن حبان وصححه. قوله: (وبعلها) أي: زوجها: (شاهد) أي: حاضر، يعني مقيم في البلد إذ لو كان مسافراً فلها الصوم؛ لأنه لايتأتي منه الاستمتاع بها. وقال الكرماني: قال أصحابنا: النهي للتحريم. وقال النووي في (شرح المهذب) : وقال بعض أصحابنا: يكره فلو صامت بغير إذنه صح وأثمت".

الفتاوى الهندية (1/ 201):

"ويكره أن تصوم المرأة تطوعاً بغير إذن زوجها إلا أن يكون مريضاً أو صائماً أو محرماً بحج أو عمرة وليس للعبد والأمة أن يصوما تطوعاً إلا بإذن المولى كيفما كان، وكذا المدبر والمدبرة وأم الولد فإن صام أحد من هؤلاء للزوج أن يفطر المرأة وللمولى أن يفطر العبد والأمة وتقضي المرأة إذا أذن لها زوجها أو بانت ويقضي العبد إذا أذن له المولى أو أعتق فأما إذا كان الزوج مريضاً أو صائماً أو محرماً لم يكن له منع الزوجة من ذلك، ولها أن تصوم، وإن نهاها، وليس كذلك العبد والأمة فإن للمولى منعهما على كل حال، كذا في الجوهرة النيرة".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں