بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا خود نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام کرنے کی صورت میں شوہر کے حقوق/ بیوی کی محارم سے ملنے کی حد


سوال

 اگر گھر بیوی نے خریدا ہو اور وہ تمام ماہانہ خرچہ بھی اٹھا رہی ہو اور شوہر کچھ نہ کر رہا ہو تو کیا شوہر کے تمام حقوق سلب ہوجاتے ہیں ؟ بیوی اس بات میں آزاد ہے جسے گھر میں آنے دے ، جسے آنے سے منع کر دے اور شوہر کو کوئی اختیار نہ ہو کہ وہ بیوی کے رشتےداروں کو گھر آنے سے روک دے یا شوہر اپنی والدہ یا بھائی کو گھر بلا سکے ؟

جواب

بیوی کا نان ونفقہ اور اس کی رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ لازم ہے، نہ دینے پر  بیوی کو قانونی چارہ جوئی کا حق بھی حاصل ہے،  شوہر کا گھر بیٹھے رہنا اور کچھ کام وغیرہ نہ کرنا اور بیوی کا اس کے اخراجات اٹھانا یہ تقسیم فطرت، تعلیماتِ شریعت اور غیرت وحمیت کے بھی خلاف ہے،  بلکہ شوہر کو تو شرعاً یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ بیوی کو گھر سے باہر ملازمت  کے لیے جانے سے منع کردے ،اور اس کو گھر میں رہنے کا پابند کرے، اور اگر کہیں اس طرح ہو کہ بیوی شوہر کے اخراجات اٹھارہی ہو تب بھی اس سے شوہر کے حقوق ختم نہیں ہوتے،  نہ ہی ایسا کرنے سے بیوی کو شوہر کے حقوق حاصل ہوجاتے ہیں۔

شوہر کے والدین اوربھائی شوہر کے گھر آسکتے ہیں اور بیوی کے والدین بھی ہفتے میں ایک مرتبہ اس سے ملاقات کرسکتے ہیں، اوردیگر رشتہ دار سال بھر میں ایک مرتبہ مل سکتے ہیں، مگر آئے روز بیوی کے رشتہ داروں کو آکر ملنے کا حق نہیں ہے ، شوہر انہیں منع کرسکتا ہے، اسی طرح بیوی کا شوہرکی اجازت کے بغیر اجنبیوں کو گھر میں آنے کی اجازت دینا درست نہیں ہے۔

'فتاوی شامی'  میں ہے: 

'  (ولا يمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار، ولو أبوها زمناً مثلاً فاحتاجها، فعليها تعاهده ولوكافراً وإن أبى الزوج، فتح، (ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول، زيلعي ۔

(قوله: في كل جمعة) هذا هو الصحيح، خلافاً لمن قال له المنع من الدخول معللاً بأن المنزل ملكه، وله حق المنع من دخول ملكه دون القيام على باب الدار، ولمن قال: لا منع من الدخول بل من القرار ؛ لأن الفتنة في المكث وطول الكلام، أفاده في البحر. وظاهر الكنز وغيره اختيار القول بالمنع من الدخول مطلقاً، واختاره القدوري وجزم به في الذخيرة، وقال: ولا يمنعهم من النظر إليها والكلام معها خارج المنزل إلا أن يخاف عليها الفساد، فله منعهم من ذلك أيضاً'۔ (3 / 602، باب النفقات، ط: سعید)

وفیه أیضاً:
' والذي ينبغي تحريره أن يكون له منعها عن كل عمل يؤدي إلى تنقيص حقه أو ضرره أو إلى خروجها من بيته'
۔ (3/ 603)

'فتاوی عالمگیری' میں ہے:

' وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحداً من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك، قال بعضهم: لا يمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا - رحمهم الله تعالى -، وعليه الفتوى، كذا في فتاوى قاضي خان. وقيل: لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرةً، وعليه الفتوى، كذا في غاية السروجي. وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر؟ وقال مشايخ بلخ: في كل سنة، وعليه الفتوى، وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل، كذا في فتاوى قاضي خان. وليس للزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا، هكذا في الهداية'. (1 / 556، الفصل الثانی فی السکنیٰ،ط:رشیدیہ )فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں