بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کے انتقال کے بعد ملنے والی پنشن کا حکم


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا (حال یہ ہے کہ مرنے والے کی گورنمنٹ  نوکری تھی ) بندےکے انتقال کے بعد اس کی  پینشن اہلیہ کےنام پر آتی تھی، لیکن 2007 میں اہلیہ کاانتقال ہوگیا،  پھر اس کےبعد 2016 میں گورنمنٹ نے یہ قانون پاس کیا کہ مرحوم کےخاندان میں اگر کوئی  بیوہ عورت ہےتو پینشن اس کو ملے گی،  لہذا پینشن اس بیوہ کےنام پر جاری ہوگئی،لیکن پھر کچھ کوشش کےبعد 2007 اور2016 کےدرمیان کی جو پینشن رکی ہوئی تھی وہ بھی مل گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ جو رکی ہوئی پنشن ملی ہے، کیا اس میں بیوہ کے بھائی  بہن اور مرحوم والدین کا بھی حق ہے یاصرف بیوہ کا۔ برائے کرم جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں؟

جواب

پینشن کی رقم ادارہ کی طرف سے عطیہ اور تبرع ہوتی ہے، ادارہ  جس کے نام پر جاری کرے وہی اس کا مالک ہوتا ہے، لہذا  مرحوم کی اہلیہ کے انتقال ہونے کے بعد  2007 سے 2016 تک کی جو پینشن ملی ہے اگر  وہ مرحوم کی مرحومہ بیوہ ہی کے نام پر  جاری ہوئی ہے تو اس صورت میں یہ رقم ادارہ کو واپس کرنا ہوگی، اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا، کیوں اس وقت مرحوم کی بیوہ تو موجود تھی ہی نہیں ان کا انتقال ہوگیا تھا۔

اور سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق  بعد ازاں 2016 میں حکومت نے یہ قانون پاس کیا کہ مرحوم کے خاندان کی کسی اور بیوہ کو اب پنشن کی رقم ملے گی، اگر حقیقت یہی ہے جیسے سوال سے ظاہر ہوتی ہے  تو 2016 کے بعد جو پنشن مرحوم کے خاندان کی جس بیوہ کے نام پر جاری ہوگی وہی اس کی مالک ہوگی۔

امداد الفتاوی میں ہے:

’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے‘‘۔(4/343، کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، ط: دارالعلوم) فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143908200767

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں