بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بینکاری سے متعلق مختلف سوالات


سوال

۱۔جوبندہ بینک میں کام کرتاہواس کی کمائی تومکمل حرام ہے،اب اگرایک بندہ کمپنی میں کام کرتاہے ،کمپنی نے اس کوایک پروجیکٹ دیاجوکہ بینک کے اندرپروجیکٹ ہے،اب وہ کام بینک کے اندرکرتاہے مگردوسری کمپنی کے لیے،بینک اس کمپنی کورقم اداکرتاہے،اس بندہ کی سیلری کی۔اب یہ کیاجائزہوا؟

۲۔کوئی بندہ کسی کمپنی میں کام کرتاہواس کمپنی کے جوکلائنٹ ہیں ان میں ایک بینک بھی ہے،اب وہ کمپنی بینک کوکوئی بھی سہولت فراہم کرتی ہے،بینک اس کام کی پیمنٹ کردیتاہے،اب کمپنی اپنے ملازمین کوجوتنخواہ دیتی ہے اس میں وہ بینک کاحصہ بھی شامل ہے،اس صورت میں کیاحکم ہے؟

۳۔اب مثال کے طورپردنیامیں لوگ مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں اورانہیں تنخواہ بینک کے ذریعہ ملتی ہے،اوربینک ظاہرہے اس پیسے کی رولنگ کررہاہوتاہے ،ہمیں نہیں معلوم وہ کسی صحیح کام میں استعمال کررہاہے یاغلط میں اس صورت میں کیاکرناچاہیے؟جب کہ ادارے کی تنخواہ بینک کے ذریعہ ملتی ہو،یعنی کمپنی تنخواہ بینک کے ذریعہ ملازمین کودیتی ہو۔

۴۔ایک شخص کاکہناہے کہ اسلام میں یہ کہیں نہیں ہے کہ خنزیرکی کھال حرام ہے،کوئی حوالہ نہیں ہے،اس کاصرف گوشت اورخون حرام ہے،کیایہ کہنادرست ہے؟

۵۔اسلامک بینکنگ کیاہے؟یہ کس طرح سے کام کرتی ہے ؟کیایہ جائزہے؟

جواب

۱،۲۔ اگرکوئی شخص  بینک کاملازم نہیں بلکہ کسی دوسری کمپنی کاملازم ہے،اورا س کمپنی کی جانب سے بینک میں کوئی کام سرانجام دیتاہے جس کاتعلق سودی معاملات سے نہ ہو،اوربینک کمپنی کواس شخص کے کام کی اجرت اداکرتاہے ،اورکمپنی اپنے ملازم کوتنخواہ دیتی ہے ،تویہ درست ہے،جب کہ اس کمپنی کامعاملہ بینک کے علاوہ دیگراداروں سے بھی ہواوراکثرذرائع آمدنی حلال ہوں۔

۳۔اگردیگراداروں کی آمدنی حلال ذرائع سے حاصل شدہ ہواورملازمین کومحض تنخواہ کی ادائیگی بذریعہ بینک کی جاتی ہو توبینک کے ذریعہ تنخواہ کی ادائیگی سے اصل آمدنی پرکوئی فرق نہیں پڑے گا،کیونکہ اصل آمدنی ان کوجائزذرائع سے ہے،اوربینک محض ادائیگی کاواسطہ ہے،بینک کاواسطہ ہونے کی وجہ سے اس میں حرمت پیدانہیں ہوگی۔(فتاوی بینات4/74،ط:مکتبہ بینات بنوری ٹاؤن)

۴۔قرآن مجیدکی روسے خنزیرحرام ہے ،اورسورہ انعام میں میں ’’فانہ رجس‘‘ کہ وہ ناپاک ہے ،اس بناء پرتمام علماء وفقہاء لکھتے ہیں کہ خنزیرکاہرہرجزء ناپاک اورنجس العین ہے، یعنی خنزیرکاحرام ہونااس کے گوشت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ گوشت،ہڈی ،کھال ،بال اورپٹھے وغیرہ تمام اجزاء  حرام ہیں۔اورنجس العین ہونے کی وجہ سے اس کی کھال ناپاک ہے ،حتی کہ دباغت سے بھی اس کی کھال پاک نہیں ہوسکتی۔یہ بات  تفاسیراور فقہ کی کتب میں موجودہے۔مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ سورہ بقرہ کی آیت 173کے تحت لکھتے ہیں:

’’تیسری چیزجواس آیت میں حرام کی گئی ہے وہ لحم خنزیرہے،آیت میں حرمت خنزیرکے ساتھ لحم کی قیدمذکورہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایاکہ اس سے مقصود لحم یعنی گوشت کی تخصیص نہیں،بلکہ اس کے تمام اجزاء ہڈی ،کھال ،بال ،پٹھے سب ہی باجماع امت حرام ہیں ،لیکن لفظ لحم بڑھاکراشارہ اس طرف ہے کہ خنزیردوسرے حرام جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ وہ ذبح کرنےسے پاک ہوسکتے ہیں اگرچہ کھاناحرام ہی رہے،کیونکہ خنزیرکاگوشت ذبح کرنے سے بھی پاک نہیں ہوتا،کہ وہ نجس العین بھی ہے ،حرام بھی‘‘۔(معارف القرآن،1/421،ط:مکتبہ معارف القرآن)لہذا جوشخص خنزیرکی کھال وغیرہ کوپاک سمجھتاہے وہ غلطی پرہے۔

۵۔ اسلامی بینکنگ کے نام سے جو بینکنگ ہو رہی ہے اس کو بعض حضرات اپنے علم،مشاہدہ اور تجربہ کی بنیاد پر اسلامی بینکنگ قرار دیتے ہیں،لیکن ہمارے ملک کے اہل فتویٰ کی ایک بڑی جماعت کی  تحقیق کے مطابق اسلام کی طرف منسوب بینکنگ بھی فی الواقع غیر اسلامی ہے،اس بینکنگ کو صحیح معنوں میں اسلامی تجارت کی بنیادوں پر چلانے کے بجائے اسلام کی طرف منسوب ان بینکوں میں سودی قرضہ جات کے لین دین کو اپنی جملہ خصوصیات کے ساتھ بر قرار رکھنے کے لئے مرابحہ و اجارہ ،شرکت ومضاربت جیسی فقہی اصطلاحات کا سہارا لیا گیا ہے، عملی تطبیق تاحال پورے طور پر نہیں پائی جاتی۔لہذا  مروجہ اسلامی بینکوں سے خدمات حاصل کرنا درست نہیں ۔واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143703200017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں