بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کی پینشن کا حکم


سوال

میرے والد صاحب بینک میں ملازمت کرتے تھے جو 1997 میں بغیر پینشن ریٹائر ہوئے۔ ابھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق،  اب میری والدہ پینشن کی اہل ہیں؛ کیوں کہ میرے والد 2000 میں فوت ہوگئے تھے- اپنی والدہ کو سمجھانے کے باوجود وہ پینشن لینے کے لیے بضد تھیں،  میں نے اپلائی نہیں کیا،  مگروہ مجھ سےناراض ہوکر میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ بینک میں اپلائی کرنے چلی گئیں،  اب وہ 8400 پینشن لیتی ہیں،  میں اور میرا بھائی دوسرا مہینہ ہے 8400 ،  صدقہ کر دیتے ہیں،  مگر اتنی رقم دینا بھی بڑا مسئلہ ہے۔

ایک مفتی صاحب سے بات کی وہ کہہ رہے تھے کے یہ وہ مراعات ہیں جو نوکری کے بدلے مل رہی ہیں، اس میں سود کا کوئی عنصر شامل نہیں، کیوں کہ آپ نے بینک میں پیسے تو جمع نہیں کروائے کہ ان پر سود مل رہا ہے۔ برائے مہربانی میری راہ نمائی فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں بینک سے پینشن لینا شرعاً جائز نہیں،  لہذا والدہ کو اَدب، محبت اور حکمت کے ساتھ  مسئلہ سمجھادیں، یا کسی ایسے ذریعے سے سمجھادیں جن کی بات وہ سمجھتی ہوں۔  تاہم اگر وہ سمجھنے سے قاصر ہوں تو  پھر دو صورتیں ہیں:

1- اگر آپ دونوں بھائی مل کر اپنی آمدن میں سے  8400 روپے والدہ کو دے سکتے ہیں تو اس صورت میں بینک  سے پینشن وصول کر کے والدہ کو دینے کے بجائے 8400 روپے آپ دونوں جمع کرکے والدہ کو دے دیا کریں، اور انہیں نہ بتائیں کہ آپ نے بینک سے پینشن وصول نہیں کی ہے۔

2- اگر آپ دونوں کی استطاعت نہیں ہے، یا ایسی صورت ہے کہ آپ والدہ سے اس معاملے کو مخفی نہیں رکھ سکتے تو پھر ایسی صورت میں آپ کے ذمے والدہ کی وصول کردہ پینشن کے بدلے صدقہ کرنا نہیں ہے، ہر عاقل بالغ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مکلف بنایا ہے، وہ اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے، اگر والدہ محبت و اَدب سے دینی مسئلہ سمجھانے کے باوجود نہ سمجھیں، اور نہ آپ کو اپنی طرف سے خدمت کرنے کا موقع دیں اور پینشن لینے پر اصرار کریں تو آپ دونوں بھائی پینشن کی وصولی میں ان کے معاون نہ بنیں، بلکہ جس قدر ہوسکے حلال مال سے ان کی خدمت کرتے رہیں، اور ان کے لیے دعا کرتے رہیں، امید ہے کہ  عنداللہ آپ کا مؤاخذہ نہیں ہوگا۔

واضح  رہے کہ جس طرح بینک میں پیسے جمع کرکے ان پر سود حاصل کرنا حرام ہے، اسی طرح بینک میں  ملازمت کرکے اس سے تنخواہ حاصل کرنا بھی ناجائز ہے، اس لیے کہ اس میں سودی معاملات میں معاونت ہے جو قرآن وسنت کی روشنی میں سود کی طرح حرام ہے، نیز بینک ملازمین کی تنخواہ بھی مالِ حرام سے دی جاتی ہے۔ لہٰذا سوال میں ذکر کردہ صاحب کی بات درست نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں