بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک قرضہ دے کر اس پر سروس چارجز کے نام سے رقم لیں تو کیا حکم ہے؟


سوال

ہمارے  یہاں  ایران  میں  آج کل  تورم (تضخم)  (افراط زر) بہت زیادہ ہے، یعنی پچیس فیصد بلکہ تیس فیصد تضخم ہے، اور روزانہ اس سے بھی بڑھ جاتا ہے تو بینک والے تسہیلات کے نام سے لوگوں کو وام (قرضہ)  دیتے ہیں  اور ان سے صرف 4 فیصد کارمزد  (جس کو عربی حق العمل اور میری خیال میں اردو میں سروس چارج کہتے ہیں) وصول کرتے ہیں۔  اس بارے میں علماء کے اندر سخت اختلاف ہے  کہ جائز ہے یا یہ بھی دقیق (عین) نہ ہونے  کی وجہ سے سود ہے؟حال آں کہ اکثر لوگوں کو دریافت کرنے کی سخت ضرورت بھی ہے اور ایک طرف سے نظام بھی شیعہ اور بنکیں بھی ربوی ہیں !

جواب

مروجہ بینکوں کا نظام اور اس کی بنیاد سود پر قائم ہے، اور سود کا لینا، دینا اور اس میں کسی قسم کی معاونت کرنا حرام اور ناجائز ہے، سودی لین دین کرنے والوں سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے، قرآنِ  مجید اور احادیثِ  مبارکہ  میں سود کی شناعت، قباحت اور حرمت پر متعدد وعیدیں وارد ہوئی  ہیں،  سود کی ایک اور حقیقت جو قرآنِ   کریم کے نازل ہونے سے پہلے بھی سمجھی جاتی تھی  وہ یہ تھی کہ قرض دے کر اس پر نفع لیاجائے ،سود کی یہ تعریف ایک حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے ”کل قرض جر منفعةً فهو ربوا “ یعنی ہر وہ قرض جو نفع کمائے وہ سود ہے،  لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ جو زیادتی مشروط  طور پر  قرض کی وجہ سے ہو وہ  سود میں داخل ہے۔ قرض کا ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض ادا کیا جائے اتنا ہی واپس لیا جائے،  اس پر کسی قسم کا مشروط نفع لینا سود ہے۔ لہذا مذکورہ بینکوں کا لوگوں کو قرضہ دینا اور اس پر چار فیصد نفع لینا یہ سود ہے،اور ان سے سودی قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔

حدیثِ  مبارک میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» . وقال: «هم سواء»".(الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط: دار إحیاء التراث ، بیروت. مشکاة المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

الجامع الصغیر میں ہے:           

  "كل قرض جر منفعةً فهو ربا".(الجامع الصغیر للسیوطی، ص:395، برقم :9728، ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں