بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیعت کی حقیقت


سوال

بیعت کیا ہے؟

جواب

بیعت کا مقصد التزامِ احکام (یعنی ظاہری وباطنی اعمال پر استقامت) اور اہتمام کا معاہدہ کرنا ہے، صوفیہ کے ہاں اسے "بیعتِ طریقت" کہا جاتا ہے، صحیح مسلم میں حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر ہم نو یا آٹھ یا سات افراد نبی کریم صلی اللہ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے فرمایا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم. کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے؟ ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! کس امر پر بیعت کریں؟ فرمایا: اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کرو گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، پانچوں نمازیں پڑھو گے، (احکام کو) سنو گے اور ان کی اطاعت کروگے". یہ روایت صحیح مسلم کے علاوہ سنن ابوداود اور سنن نسائی میںبھی مذکور ہے.

علماء لکھتے ہیں کہ: بیعت کی یہ صورت بیعتِ طریقت ہے، اس کا مضمون بتاتا ہے کہ یہ بیعتِ اسلام یا بیعتِ جہاد نہیں. بیعت کی حقیقت منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے کسی واقف کار کو رہبر ورفیق مان لینا اور گمراہی کے خطرات سے بچاؤ اور راہ کو سہولت وراحت سے طے کرنے کے لیے اس کے ساتھ یا پیچھے چلنا ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے مریض اپنے آپ کو طبیب کے سپرد کرکے دوا و پرہیز کے سلسلے میں اس کی ہدایات پر عمل کرتا ہے.

اس کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ نفس کے بعض امراض خفیہ ہوتے ہیں، جو ہر ایک کو سمجھ نہیں آتے، یا سمجھ آبھی جائیں تو ان کا علاج سمجھ نہیں آتا، اور اگر علاج سمجھ آبھی جائے تو نفس کی کشاکشی کی بنا پر اس پر عمل مشکل ہوجاتا ہے، ایسے موقع پر شیخ نفس کے احوال کو سمجھ کر رہبری کرتا ہے. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143805200030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں