بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

’’بی سی‘‘اور ’’کمیٹی‘‘ سسٹم کی شرعی حیثیت


سوال

 اگر دس لوگ مل کر ایک کمیٹی رکھتے ہیں ہر مہینہ دس ہزار  اور ہر مہینے ایک قرعہ نکالا جاتا ہے، جس کا نام نکلا اس کو مجموعی طور پر ایک لاکھ روپے دیے جاتے ہیں ، اس طرح دس مہینوں میں ہر کسی کے حصے میں ایک ایک لاکھ روپے آتے ہیں؛ کیوں کہ کسی کے بھی حصے میں کوئی کمی یا زیاتی نہیں ہوتی؛ اس لیے ہر کوئی مطمئن ہوتا ہے۔لیکن ابھی کچھ دن پہلے ایک صاحب علم نے کہا کہ یہ حرام میں شمار ہوتا ہے!

جواب

بی سی اور کمیٹٰی کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے، گویا کمیٹی کے ممبران میں سے ہر ممبر ایک معین رقم قرض دیتا ہے اور قرعہ اندازی میں نام نکلنے پر قرض دی ہوئی رقم وصول کر لیتا ہے،  اگر تمام ممبران برابر رقم جمع کرائیں اور انہیں برابر برابر رقم ملے تو یہ نظام شرعاً درست ہے، اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں، تاہم بعض جگہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کمیٹی کا چیئر مین کمیٹی کے پیسوں میں سے ہی اپنی دی ہوئی رقم سے کچھ زیادہ وصول کرتا ہے، ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اسی طرح بعض جگہوں پر یہ ہوتا ہے کہ جس کی بی سی نکل جاتی ہے، وہ آئندہ نہیں دیتا، اس طرح کی بی سی بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔

اسی طرح شریعت کا ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص قرض دے تو اُس قرض دینے والے کو  یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت اپنی قرض دی ہوئی رقم کا مطالبہ کر لے اگرچہ قرض کی واپسی کے لیے  ایک مدت متعین کر لی ہو ؛ لہذا کمیٹی کے ممبران کو بھی کسی بھی وقت اپنی دی ہوئی رقم واپس لینے کا حق حاصل ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 158):
"(ولزم تأجيل كل دين) إن قبل المديون (إلا) ... (القرض)".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں