بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہتان تراشی کا گناہ / بغیر ثبوت کے جرم کی سزا دینا


سوال

سازش یا سنی سنائی باتوں پر عمل کرکے کسی پر بہتان لگانا اور جس پر بہتان لگایا جارہا ہو  اس سے کسی قسم کی انکوائری کے بغیر ، صرف زبانی بات پر یقین کرکے سزا سنائی جائے ، یہ کیسا ہے؟

جواب

کسی پر بے جا تہمت اور بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے  وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا  آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیاہے۔

ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے:  جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔
الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے؛ تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔

'' عن علي قال: البهتان على البراء أثقل من السموات. الحكيم''. (كنز العمال (3/ 802)، رقم الحدیث: 8810)

'' لا ینبغي لصدیق أن یکون لعانًا''۔ (مشکاة المصابیح۲؍۴۱۱)

''لا یرمي رجلٌ رجلاً بالفسوق ولا یرمیه بالکفر إلا ارتدت علیه إن لم یکن صاحبه کذلک'' ۔ (صحیح البخاري، باب ما ینهی عن السباب واللعن، ۲؍۸۹۳رقم:۵۸۱۰، مشکاة المصابیح۴۱۱)

نیز شریعت میں دعوی اور حق کو ثابت کرنے لیے یہ ضابطہ ہے کہ  مدعی ( دعوی کرنے والے ) کے ذمہ اپنے دعوی کو گواہی کے ذریعہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے، اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں تو  مدعی علیہ (جس پر دعوی کیا جائے اس)  پر قسم آئے گی ، اور اگر وہ قسم کھالے تو اس کی بات معتبر ہوگی، لہذ ا کسی شخص کو محض الزام لگاکر اس کے جرم کے ثابت ہوئے بغیر  سزا دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔اگر سزا نافذ نہ کی گئی ہو تو سچی توبہ اور صاحبِ حق سے زبانی معافی کافی ہوگی۔ اگر سزا نافذ بھی کردی گئی اور اس سے مالی نقصان اٹھانا پڑا ہو تو صدقِ دل سے توبہ اور زبانی معافی کے ساتھ مالی تاوان بھی ادا کرنا ہوگا۔

''مرقاۃ المفاتیح '' میں ہے:

'' عن ابن عباس مرفوعاً: «لكن البينة على المدعي واليمين على من أنكر»۔ قال النووي: هذا الحديث قاعدة شريفة كلية من قواعد أحكام الشرع، ففيه: أنه لا يقبل قول الإنسان فيما يدعيه بمجرد دعواه، بل يحتاج إلى بينة، أو تصديق المدعى عليه''۔(7/250، باب الاقضیہ والشہادات، ط :امدادیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201518

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں