بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بھیک مانگنے کو پیشہ بنانا


سوال

 آپ سے یہ مسئلہ پوچھنا ہے کہ آج کل بھیک مانگنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور زور و شور پر ہے ، اور اخباری اطلاعات کے علاوہ مصدقہ و مشاہداتی حقائق بھی یہ بتارہے ہیں کہ اسے منگتو لوگوں نے باقاعدہ پیشہ بنالیا ہے، اس ضمن میں مندرجہ ذیل سوالات ہیں:

1۔ اس کام کو پیشہ بنانا کیسا ہے؟

2۔ مسلمان کے لیے بھیک مانگنا کب درست ہے اور کب ناجائز ہے؟

3۔  جن صورتوں میں ناجائز ہے تو ان صورتوں میں کسی شخص کا انہیں بھیک دینا کیسا ہے ؟ایسے لوگوں کو بھیک دینے والا گناہ گار تو نہیں ہوگا؟

4۔ کسی نوجوان عورت /لڑکی کا بھیک مانگنے کےلیے مزدوں و بسوں و بس اسٹاپ پر بھیک مانگنے کے لیے  گھر سے نکلنا کیسا ہے؟ یہ سب باتیں اس لیےلکھی ہیں، کیوں کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ضرورت مند کو کچھ نہ کچھ دینا چاہیے۔

جواب

1۔ 2۔ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلا ضرورت مانگتا ہے تو قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو کم جمع کرے یا زیادہ۔

صحيح مسلم میں ہے:

"حدثنا أبو كريب وواصل بن عبد الأعلى قالا: حدثنا ابن فضيل عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سأل الناس أموالهم تكثراً؛ فإنما يسأل جمراً فليستقل أو ليستكثر". (صحيح مسلم، رقم الحديث: ١٠٤١)

سنن أبي داؤدمیں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا تحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي". (سنن أبي داؤد، سنن أبي داود، كتاب الزكاة، باب من يعطي من الصدقة وحد الغنى، رقم الحديث: ١٦٣٤)

مسلم شریف میں ہے:

"عن قبيصة بن مخارق الهلالي قال: تحملت حمالةً، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أسأله فيها، فقال: أقم حتى تأتينا الصدقة فنأمر لك بها، قال: ثم قال: يا قبيصة! إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالةً فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقدأصابت فلاناً فاقة فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، فما سواهن من المسألة يا قبيصة سحتاً يأكلها صاحبها سحتاً". (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب من تحل له المسألة، رقم الحديث، ١٠٤٤)

3۔ جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، البتہ اگر کسی نے بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہوگا، البتہ ایسے افراد کو زکات یا صدقاتِ واجبہ نہیں دینا چاہیے۔

4۔ اگر واقعۃً  اضطراری کیفیت میں مبتلا نہ ہو تو بھیک مانگنے کی غرض سے گھر سے نکلنا جائز نہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں