بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بھانجے اور بھانجی کی میراث


سوال

ایک آدمی وفات پا گیا ہے،  پیچھے صرف اپنی بیوی چھوڑ گیا ہے،  اس کے علاوہ صرف تین بھانجے اور ایک بھانجی ہے۔ اور کوئی بھی وارث نہیں۔ براۓ کرم شریعتِ مطہرہ کی رو سے راہ نمائی فرمائیں اس کی تقسیم کیسے ہوگی؟

جواب

مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے ترکہ  میں  اس کے  حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد،  اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو  اس کو کل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرکے باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو  28 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ  کو 7 حصے،مرحوم کے ہر ایک بھانجےکو 6،6 حصے اور ایک بھانجی کو 3 حصہ ملے گا۔

یعنی مثلاً  100 روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو 25اور مرحوم کے ہر ایک بھانجے کو  21اعشاریہ 42روپے، اور ہر ایک بیٹی کو 10اعشاریہ 71 روپے ملیں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 792):

"باب توريث ذوي الأرحام (هو كل قريب ليس بذي سهم ولا عصبة) فهو قسم ثالث حينئذ (ولا يرث مع ذي سهم ولا عصبة سوى الزوجين) لعدم الرد عليهما (فيأخذ المنفرد جميع المال)
(ويحجب أقربهم الأبعد) كترتيب العصبات فهم أربعة أصناف جزء الميت، ثم أصله ثم جزء أبويه ثم جزء جديه أو جدتيه (و) حينئذ (يقدم) جزء الميت وهم (أولاد البنات وأولاد بنات الابن)".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 792):
"وللذكر كالأنثيين إن كانوا مختلطين كابن بنت وبنت بنت".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں