بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بچی کے علاج کے لیے ہسپتال میں زکات کی مد سے رقم جمع کروانا


سوال

کیا زکاۃ کی رقم اس طرح ادا کی جاسکتی ہے کہ ایک ضرورت مند گھرانہ کی ایک چھ سالہ بچی کے دل میں سوراخ تھا، ان کے پاس کے علاج کے پیسے نہیں تھے، مجموعی خرچہ 211000 کے لگ بھگ تھا، جس میں ڈاکٹر نے غالباً اپنی فیس بھی نہیں لی یا پھر کم لی، باقی  26000 کچھ ہسپتال کی  طرف سے  ویلفیر کی مد میں رعایت مل گئی، باقی 185000 روپے باقی تھے، جس میں سے 65000 کے قریب انہوں نے خود یا کہیں سے جمع کیے تھے، بقایا  120000 کی کمی تھی،  تو کیا زکات  کی مد میں یہ رقم خود ہسپتال جاکر بچی کے کھاتے میں جمع کراسکتے ہیں؟

جواب

اگر کسی شخص کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر  رقم نہ ہو  اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہو جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہو اور نہ  ہی وہ سید ، ہاشمی، عباسی ہو تو  اس کے لیے زکات کی رقم سے علاج کرانا جائز ہوتا ہے۔ نیز  زکات  میں مستحقِ زکات شخص کو مالک بنانا ضروری ہوتا ہے، اور اگر بچہ  کو زکات دی جارہی ہو اور وہ بہت چھوٹا اور ناسمجھ ہو تو اگر اس کا ولی (مثلاً والد) مستحقِ زکات ہے تو اس کے ولی کے اس کی طرف سے قبضہ کرلینے سے زکات ادا ہوجائے گی، ایسے ناسمجھ بچوں کاخود قبضہ کرنا معتبر نہیں ہوتا۔

مذکورہ تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ  زکات کی مد سے بچی کا علاج کرانے کے  لیے ضروری ہے کہ  زکات کی اتنی رقم اس بچی کے مستحقِ زکات والد (یا اس کے گھر کے کسی اور مستحقِ زکات فرد) کو  مالک بنا کر دے دیں،پھر وہ خود یا آپ اس سے لے کر ہسپتال والوں کو دے دیں، دونوں صورتوں میں اگر والد زکات کا مستحق ہے تو اس کو یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکات کی رقم ہے، بلکہ ہدیہ یا تعاون کے نام سے بھی دے سکتے ہیں، صرف آپ دل میں زکات کی ادائیگی کی نیت کرلیں یہ کافی ہے، یا یہ صورت اختیار کی جائے کہ زکات کی مد سے علاج کرانے والا شخص  زبانی یا تحریری طور پر  اس بچی کے والد سے اجازت لے کر اس کا وکیل بن جائے، پھر جتنی رقم کی ضرورت پڑے  زکات کی  مد سے  وکیل کے طور پر خرچ کریں ، ان تینوں صورتوں میں زکات ادا  ہوجائے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’ولو قبض الصغیر وهو مراهق جاز، وکذا لو کان یعقل القبض‘‘. (الفتاویٰ الهندیة ۱/۱۹۰)

فتاوی شامی میں ہے:

’’ ویصرف إلی مراهق یعقل القبض‘‘. (شامي / باب المصرف ۳/۲۹۱ زکریا)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

’’سئل عبد الکریم عمن دفع زکاة ماله إلی صبي؟ قال: إن کان مراهقاً یعقل الأخذ یجوز، وإلا فلا. وفي الخانیة: وکذا لو کان الصبي یعقل القبض بأن کان لایرمي به ولا یخدع عنه‘‘. (الفتاویٰ التاتارخانیة ۳/۲۱۱ )

فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي. والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء؛ إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. ....... ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية. ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي‘‘. (1/189، باب المصرف، کتاب الزکاۃ، ط: رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

’’ويشترط أن يكون الصرف (تمليكاً) لا إباحةً، كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)، أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره‘‘. (2 / 344، باب المصرف، ط: سعید)

      بدائع الصنائع میں ہے:

’’ولو قضى دين حي فقير إن قضى بغير أمره لم يجز؛ لأنه لم يوجد التمليك من الفقير؛ لعدم قبضه، وإن كان بأمره يجوز عن الزكاة؛ لوجود التمليك من الفقير؛ لأنه لما أمره به صار وكيلاً عنه في القبض فصار كأن الفقير قبض الصدقة بنفسه وملكه من الغريم‘‘. (2/ 39،  رکن الزکاۃ، ط : سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200338

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں