بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بچی کی موجودگی میں بیوی سے بوس و کنار


سوال

کیا اپنی تین سالہ بچی کے سامنے بیوی سے بوس و کنار اور چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے؟ ہم ڈاکٹرز ہاسٹل کے ایک کمرے میں رہتے ہیں، اور اس کو باہر بھی نہیں بھیج سکتے؟

جواب

بچہ جب سن شعور کو پہنچ جائے تو اس کے سامنے میاں بیوی کے لیے بوس و کنار وغیرہ کرنا ناجائز ہے، اور اگر وہ سن شعور کو نہیں پہنچا تو اس کی موجودگی میں ایسا کرنا حرام نہیں، لیکن چوں کہ بچہ جو کچھ دیکھتا ہے اس کا تاثر رکھتا ہے اور بچپن میں ذہن نشین ہونے والی چیزیں اور واقعات اخیر عمر تک برقرار رہتے ہیں؛ اس لیے سن شعور کو نہ پہنچے ہوئے بچے کے سامنے بھی یہ افعال نہ کیے جائیں،  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کمال احتیاط تھا کہ وہ  اس موقع پرجھولے میں موجود بچے کو بھی کمرے سے نکال لیا کرتے تھے، واضح رہے کہ عام طور پر بچہ سات سال کی عمر تک شعور حاصل کرلیتا ہے۔

لہذا تین سالہ بچی کے سامنے بوس و کنار وغیر کرنا مناسب نہیں، اس سے اجتناب کرنا مناسب ہے، تاہم اگر کرلیا تو گناہ نہیں۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (3/ 178)

"ما يخل بالاستتار:

أ - يخل بالاستتار وجود شخص مميز مستيقظ معهما في البيت، سواء أكان زوجة، أم سرية، أم غيرهما، يرى أو يسمع الحس ، وبه قال الجمهور، وقد سئل الحسن البصري عن الرجل يكون له امرأتان في بيت؟ قال: كانوا يكرهون أن يطأ إحداهما، والأخرى ترى أو تسمع.

ب - ويخل بالاستتار وجود نائم، نص على ذلك المالكية، فقال الرهوني في حاشيته على شرح الزرقاني لمتن خليل: لا يجوز للرجل أن يصيب زوجته أو أمته ومعه في البيت أحد يقظان أو نائم ؛ لأن النائم قد يستيقظ فيراهما على تلك الحال.

ج - ويخل بالاستتار عند جمهور المالكية وجود صغير غير مميز، اتباعاً لابن عمر الذي كان يخرج الصبي في المهد عندما يريد الجماع. وذهب الجمهور -ومنهم بعض المالكية - إلى أن وجود غير المميز لا يخل بالاستتار؛ لما فيه من مشقة وحرج".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 115)

"و) بلا (وجود ثالث معهما) ولو نائماً أو أعمى (إلا أن يكون) الثالث (صغيراً لا يعقل) بأن لا يعبر عما يكون بينهما".

و في الرد: "(قوله: وبلا وجود ثالث) قدر قوله "بلا"؛ ليكون عطفاً على "قوله: بلا مانع حسي"؛ بناءً على أنه طبعي فقط، لكن علمت ما فيه. قال ط: ولايتكرر مع ما تقدم؛ لأن ذاك تمثيل من الشارح، وهذا من المصنف تقييد، (قوله: ولو نائماً أو أعمى)؛ لأن الأعمى يحس، والنائم يستيقظ ويتناوم، فتح، ودخل فيه الزوجة الأخرى وهو المذهب، بناءً على كراهة وطئها بحضرة ضرتها، بحر.

قلت: وفي البزازية من الحظر والإباحة. ولا بأس بأن يجامع زوجته وأمته بحضرة النائمين إذا كانوا لا يعلمون به، فإن علموه كره اهـ ومقتضاه صحة الخلوة عند تحقق النوم، تأمل.

وفي البحر: وفصل في المبتغى في الأعمى، فإن لم يقف على حالة تصح، وإن كان أصم إن كان نهاراً لا تصح، وإن كان ليلاً تصح اهـ.

قلت: الظاهر أنه أراد بالأصم غير الأعمى، أما لو كان أعمى أيضاً فلا فرق في حقه بين النهار والليل، تأمل".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201723

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں