بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ کی ولادت کے بعد آنے والے خو ن نفاس کا حکم


سوال

بہت سے خاندا نوں میں یہ رواج ہے کہ بچے کی پیدائش  کے  بعد سوا مہینہ تک عورت نماز نہیں پڑھتی؛  کیوں کہ عورت کو ناپاک سمجھا جاتا ہے،اس کی وضاحت کردیں۔

جواب

بچہ پیدا ہونے کے بعد عورت کے رحم سے جو خون آتا ہے اس کو نفاس کہتے ہیں ،  نفاس کی حالت میں  عورت کے لیے نماز ، روزہ، اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا یا چھونا جائز  نہیں ہوتا، البتہ پاک ہونے کے بعد  فرض روزوں کی قضا لازم ہوگی، اور ان ایام کی نمازیں عورت کے لیے بالکل  معاف ہیں  اور ان کی قضا بھی لازم نہیں ہوگی۔

نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، اور کم سے کم مدت  کی کوئی حد نہیں،  اگر کسی کو ایک آدھ گھڑی خون آکر بند ہو جائے تو وہ بھی نفاس ہے، لہذا اگر کسی عورت کو بچہ کی ولادت کے بعد چالیس دن کے اندر اندر خون آئے تو وہ نفاس کا ہے،  اور چالیس دن کے اندر اندر خون آنا بند ہوجائے تو وہ پاک سمجھی جائے گی، چالیس دن یا سوا مہینہ  تک ناپاک نہیں شمار ہوگی ۔ اور چالیس دن سے بڑھ جائے تو اگر اس کا پہلا بچہ ہے تو چالیس دن نفاس کا خون ہوگا، اور اس کے بعد آنے والے خون بیماری کا کہلائے گا، اس میں نماز وغیرہ پڑھنی ہوں گی، اور اگر اس کا پہلے سے کوئی بچہ ہے تو اس کی جتنے دن خون آنے عادت ہے وہ نفاس کا شمار ہوگا اور باقی بیماری کا خون شمار ہوگا۔

لہذا آپ نے جو  ذکر کیا کہ بعض خاندانوں میں یہ رواج ہے تو یہ صرف رواج نہیں،  بلکہ شرعی حکم بھی ہے، البتہ اس میں یہ تفصیل ہےکہ مطلقاً ولادت کے بعد سوا مہینہ عورت ناپاک  رہے، یہ ضروری نہیں ۔ 

الفتاوى الهندية (1/ 37)
"أقل النفاس ما يوجد ولو ساعةً، وعليه الفتوى، وأكثره أربعون، كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس، هكذا في المحيط".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں