بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بلی کو مارنا


سوال

 ہمارے گھر میں ایک بلی ہے جو کہ سالوں سے ہماری پالتو ہے اور گھر ہی میں رہتی ہے,  لیکن ایک اور بلی اس کے ساتھ اکثر دن یا رات کے اوقات میں اس قدر بری طرح کی آوازیں نکال کے رات گئے میری چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کو ڈرا دیتی ہیں جس سے ہماری نیند بھی خراب ہوتی ہے اور اتنا غصہ آتا ہے کہ اسے جان سے ہی مار دوں،  مگر بس بلی کو مارنے کے بارے میں منع ہے کا سن رکھا ہے۔ مہربانی فرما کر اس بارے میں کوئی راہ نمائی فرمائیں کہ اسے مار سکتے ہیں کہ نہیں؟  کیوں کہ میں بیان نہیں کر سکتا ان کی واہیات آوازیں اور جگہ گندگی وغیرہ کرنا ہمارے ہاں گملے ہیں ان میں بھی گند مچاتی ہیں  اور کچن میں بھی بربادی کرتی ہیں ۔

جواب

 اگر کسی او ر طریقہ سے اس  بلی سے جان جھڑانا ممکن ہو مثلاً  کسی دور جگہ چھوڑدینا وغیرہ تو  یہ طریقہ اختیار کیا جائے،  اگر کوئی اور صورت ممکن نہ ہو اور بلی تنگ کررہی ہو تو اس کو مارا جاسکتا ہے، البتہ مارنے میں یہ ملحوظ رہے کہ کسی ایسی چیز سے مارا جائے جس سے اس کی جان جلدی سے نکل جائے اس کو  زیادہ اذیت نہ ہو۔ باقی بلاوجہ بلی یا کسی دوسرے جانور مارنا منع ہے، احادیث مبارکہ میں اسی کا ذکر ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 752):
"وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحاً) ولايضر بها؛ لأنه لايفيد، ولايحرقها.

(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج، زيلعي".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں