بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بلعم بن باعوراء کا قصہ


سوال

(1) سورہ اعراف میں " بلعم بن باعوراء " کا قصہ مختصراً بیان کیا گیا ہے,  جو اسم اعظم جانتا تھا۔ یہ پورا واقعہ کیا ہے؟

(2) کیا یہ بات درست ہے کہ بنی اسرائیل میں کچھ لوگ ستاروں کے علم کی مدد سے غیب کی باتیں کسی حد تک جانتے تھے؟

(3) فرعون نے اہرامِ مصر کی تعمیر میں کیا واقعی جنات کی مدد لی ؟ اگر لی تھی تو کس طرح اور کیسے اس نے جنات کو اپنے حکم کا تابع بنایا ؟

جواب

1۔۔ قرآن کریم میں پارہ 7 سورہ اعراف میں ہے:  ﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي اٰتَيْنَاهُ اٰيَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ  وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾ (الأعراف: 175،176)

ترجمہ: "اور سنا دے ان کو حال اس شخص کا جس کو ہم نے دی تھیں اپنی آیتیں، پھر وہ ان کو چھوڑ نکلا، پھر اس کے پیچھے لگا شیطان تو وہ ہوگیا گمراہوں میں   اور ہم چاہتے تو بلند کرتے اس کا رتبہ ان آیتوں کی بدولت، لیکن وہ تو ہو رہا زمین کا اور پیچھے ہولیا اپنی خواہش کے تو اس کا حال ایسا ہے جیسے کتا، اس پر تو بوجھ لادے تو ہانپے اور چھوڑ دے تو ہانپے، یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو،  سو بیان کر یہ احوال تاکہ وہ دھیان کریں"۔ (از ترجمہ شیخ الہند)

 مذکورہ آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ تم یہود کو اس شخص کا قصہ سناؤ جس کو اللہ نے اپنی نشانیاں دی تھیں، مگر وہ ان نشانیوں سے اس طرح نکل گیا جس طرح سانپ کینچلی سے نکل جاتا ہے، ائمہ تفسیر سے اس بارے میں مختلف روایتیں مذکور ہیں، جن میں زیادہ مشہور اور جمہور کے نزدیک قابلِ اعتماد وہ روایت ہے جو ابن مردویہ نے حضرت  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے، اس روایت میں اس شخص کا نام "بلعم بن باعوراء" اور بعض نے "بلعام بن باعر" بتایا ہے، یہ ملک شام میں بیت المقدس کے قریب کنعان کا رہنے والا تھا، ایک روایت میں اس کو اسرائیلی بتایا گیا ہے، اسے اللہ تعالیٰ کی بعض کتابوں کا علم حاصل تھا، قرآن کریم میں جو اس کی صفت بیان ہوئی ہے وہ ” الَّذِيْ اٰتَیْنَاهُ اٰیٰتِنَا “ ہے، اس سے اسی علم کی طرف اشارہ ہے، غرقِ فرعون اور ترکِ مصر کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو "جبارین" ،"قومِ عمالقہ" سے جہاد کرنے کا حکم دیا، اور جبارین نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرئیل کا لشکر لے کر قریب پہنچ چکے ہیں، "جبارین"  کو اس کی فکر ہوئی، جمع ہو کر "بلعم بن باعوارء" کے پاس آئے اور کہا: موسیٰ (علیہ السلام) سخت آدمی ہیں، اور ان کے ساتھ ایک بہت بڑا لشکر ہے، وہ ہمارے ملک پر قبضہ کرنے اور ہم کو ہمارے ملک سے بےدخل کرنے کے لیے آئے ہیں، آپ اللہ سے دعا کریں کہ ان کو ہمارے ملک سے واپس کردے، "بلعم بن باعوراء"  کو اسمِ اعظم معلوم تھا، وہ اس کے ذریعہ جو دعا کرتا وہ قبول ہوتی تھی۔
 "بلعم" نے اول تو معذرت کی اور کہا: وہ اللہ کے نبی ہیں، ان کے ساتھ فرشتوں کا لشکر ہے، میں ان کے خلاف بددعا کیسے کرسکتا ہوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میرا دین اور دنیا دونوں برباد ہوجائیں گی۔ مگر قوم نے بےحد اصرار کیا تو "بلعم" نے کہا: اچھا تو میں اس معاملہ میں استخارہ کرکے اپنے رب کی مرضی معلوم کرلوں، اس نے استخارہ کیا، استخارہ میں معلوم ہوا کہ ایسا ہرگز نہ کرنا۔ اس نے قوم سے کہا: مجھے بددعا کرنے سے منع کردیا گیا ہے، اس وقت "جبارین" نے ایک بہت بڑا تحفہ "بلعم"  کو پیش کیا، اس نے قبول کرلیا، اس کے بعد "جبارین" کا اصرار بہت زیادہ بڑھ گیا، بعض روایات میں ہے کہ اس کی بیوی نے مشورہ دیا کہ رشوت قبول کرلیں اور ان کا کام کردیں، بیوی کی رضا جوئی اور مال کی محبت نے اس کو اندھا کردیا، اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے لیے بددعا  کرنی شروع کردی، اس وقت قدرتِ الہٰیہ کا عجیب کرشمہ ظاہر ہوا، وہ کلماتِ بددعا جو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے لیے کہنا چاہتا تھا اس کی زبان سے وہ الفاظِ بددعا قومِ جبارین کے لیے نکلے، "جبارین" چلا اٹھے کہ تم تو ہمارے لیے بددعا  کررہے ہو، "بلعم" نے جواب دیا: یہ میرے اختیار میں نہیں ہے، میری زبان اس کے خلاف پر قادر نہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم پر تباہی آئی اور "بلعم"  کو یہ سزاملی کہ اس کی زبان لٹک کر سینے پر آگئی، اب اس نے "جبارین" سے کہا: میری تو دنیا و آخرت تباہ ہوگئی، اب میری دعا  کی قبولیت سلب کرلی گئی، لیکن میں تمہیں ایک تدبیر بتاتا ہوں جس کے ذریعہ تم موسیٰ اور اس کی قوم پر غالب آسکتے ہو، وہ یہ کہ تم اپنی حسین لڑکیوں کو آراستہ کرکے بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو، اور ان کو تاکید کردو کہ بنی اسرائیل میں کوئی بھی ان کے ساتھ جو کچھ بھی کرنا چاہے، منع نہ کریں، "بلعم بن باعوراء"  کی یہ شیطانی چال ان کی سمجھ میں آگئی، اور اس پر عمل کیا گیا، بنی اسرائیل کا ایک بڑا شخص جس کا نام "شمعون بن یعقوب"  بتایا گیا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لشکر کا سپہ سالار بھی تھا، اسے ایک عورت بہت پسند آئی وہ اسے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میرا خیال یہ ہے کہ آپ اس عورت کو حرام سمجھیں گے، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ مجھ پر بھی حرام ہے اور تجھ پر بھی، اس نے یہ بات سنتے ہی قسم کھا کر کہا : میں آپ کی اطاعت نہیں کروں گا، اور اپنے خیمہ میں لے جا کر فعلِ بد کا مرتکب ہوگیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں طاعون بھیج دیا، جس کے نتیجہ میں ستر ہزار آدمی ہلاک ہوگئے۔
 بعض مفسرین نے اس آیت کے شانِ نزول کے سلسلہ میں "امیہ بن صلت" کا نام لیا ہے جو آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود تھا، اس کے علاوہ بعض مفسرین نے شانِ نزول کے سلسلہ میں اور نام بھی لیے ہیں۔  مگر یہ بات طے ہے کہ علی بن طلحہ کی روایت حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ ) سے تفسیر کے باب میں بڑی معبتر روایت ہے، ابنِ جریر نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کا یہی شانِ نزول بیان کیا ہے؛  لہٰذا یہی شانِ نزول صحیح ہے۔ (معارف، احسن التفاسیر، فتح القدیر شوکانی)
2/3۔۔ باقی سوالات کا تعلق نہ عقیدہ سے ہے نہ شرعی مسائل سے، لہذ ا اس میں اپنا وقت ضائع نہ کریں، ایسے سوالات سے اجتناب کریں جن سے کوئی مفید غرض وابستہ نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں